بیان کس سے ہو ظلمت گستری میری شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
ذاتی اعمال کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوکر خلیفہ سیاست میں الجھ گئے۔ اپنے سارے نظام کو بھی اس طرح ڈھال لیا۔ ان کے نظام کا ڈھانچہ جو کتابچے میں تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ تبلیغ اسلام محض دھوکے کی ٹٹی تھی۔ ورنہ اس مقدس کام کے لئے اس آہنی نظام کی کیا ضرورت تھی۔ جس میں حکومت کے سارے محکمے ہوں اور سارا زور کار خاص بنکاری، عسکریت اور تادیب وتعزیر پر ہو۔ چونکہ چندہ اسلام کے نام پر ہی مل سکتا تھا۔ اس لئے اس کو بطور اشتہار کے رکھنا ضروری تھا۔ ورنہ نظام کی آمرانہ شدت مقامرانہ سیاست کی غمازی کر رہی ہے۔ چونکہ جماعت کا نوجوان طبقہ ان کی جنسی یلغاروں سے زیادہ زخمی ہوا۔ اس نے خلیفہ صاحب کے چال چلن کے خلاف جہاد کیا اور اپنا زور عورات خلافت کو بے نقاب کرنے میں لگا دیا ہے۔ اس سے ایک فائدہ ہوا کہ خلیفہ کی تقدیس کی فصیلیں مسمار ہوگئیں اور معاشرہ ایک خطرے سے آگاہ ہو گیا۔ لیکن ملک اور قوم کو اصلی خطرہ، محمودی سیاست کا تھا جو محلاتی عفونتوں سے ملوث تھی۔ کیونکہ خلافت ربوی کے عفونت زار سے غلیظ سیاست ہی جنم لے سکتی تھی۔ اسی سیاست کا صحیح وسالم نقشہ اس کتابچے میں پیش کیاگیا ہے اور یہ سارا نقشہ خلیفہ کے اپنے خطبات سے ماخوذ ہے۔ ان کی تقاریر کی تبویب اور ترتیب سے محمودی منصوبہ ایک عامی پر بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اب تک ارباب اختیار خلیفہ کی خلوتی زندگی کی بے اعتدالیوں کو مرکز توجہ بنانے سے گریز کرتے رہے۔ لیکن جب ان پر خلیفہ کے سیاسی عزائم کا انکشاف ہوگا تو ان کے لئے نچلا بیٹھنا یقینا ناممکن ہو جائے گا۔
اس کتابچے کو حقیقی پسند پارٹی نے اجتماعی کوشش سے مرتب کیا ہے۔ وہ اس کو شائع کر کے عوام اور حکام کو ایک زیر زمین چھپے ہوئے ڈائنامیٹ سے آگاہ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے مندرجات کی صحت کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ خلیفہ اپنی تقاریر اور اعلانات کے اقتباسات پڑھ کر خود بے اختیار کہہ اٹھیں گے۔
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
بشیر رازی: صدر مرکزی حقیقت پسند پارٹی لاہور… ۱۲؍ستمبر۱۹۵۷ئ!
دین کے پردے میں سیاست کاری
کسی جماعت کے لئے اس سے زیادہ معیوب بات کوئی نہیں کہ وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ