گو،بازاری لوگ،حرامزادے، حریص، خود غرض، بے ایمان،منافق، مسیلمہ کذاب، سیاہ کار، یہودی اوربے حیا تک کی گالیاں دے جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کے خلاف کوئی جماعت یا کوئی گروہ اقدام کرے تو حکومت وقت کے دروازے پر پہنچ کر مظلوم بن جاتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ حضور دیکھئے ہم بڑے پرامن ہیں۔ یہ لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حفاظت کی جائے۔ ہم پرامن ہیں اور پر امن رہیں گے۔ یہ ہمارے مخالف بڑے کمینے لوگ ہیں۔ ہمیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ دوڑیو بچائیو! مار گئے۔ دوڑیو دوڑیو بچائیو!
یہ خصولیت لومڑی کی ہے اور اسی کا نام مکروریا ہے۔ پس مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ شاطر سیاست کا شیطان کی آنت جتنا لمبا خواب اگر فی الحقیقت انہوں نے دیکھا ہے تو خود ان ہی سے متعلق ہے اور اس رؤیا میں جس شخص کو لومڑی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی وہی مراد ہیں اور ان کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کا مصداق نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہنے کی جسارت کبھی بھی نہیں کریں گے کہ شاطر سیاست لومڑی ہیں۔
کہیں تو کیسے کہیں ہم کو تم سے الفت ہے
تمہاری بات ہے ہم سے کہی نہیں جاتی
استقامت میں فرق آگیا
جس طرح شاطر سیاست نے نوجوان مخرجین میں سے ایک شخص کو اپنے لومڑی والے رؤیا کا مصداق قرار دیا تھا۔ بعینہ انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کے الہام ’’استقامت میں فرق آگیا‘‘ کہ مخرجین میں سے ایک شخص عبدالمنان عمر پر چسپاں کیا ہے۔ عبدالمنان عمر حکیم نورالدین (خلیفہ اوّل) کے لڑکے ہیں اور انہیں شاطر سیاست نے محض اس لئے اپنی جماعت سے خارج کر دیا ہے کہ وہ ان کی زندگی کے بعد خلیفہ ہی نہ بن جائیں۔ سو انہوں نے اس موقع پر حسب معمول مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک ’’الہام‘‘ جلی حروف میں شائع کیا ہے اور اس الہام کا مصداق عبدالمنان عمر کو قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ ان کا استدلال کہاں تک درست ہے۔ تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ انہیں ایسی باتیں کرنے سے کیا مقصود ہوتا ہے اور نیز یہ کہ وہ کہاں تک حق گو ہیں اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ کہیں مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ الہام یارؤیایاکشف بھی شاطر سیاست سے متعلق ہی تو نہیں۔ ہماری اس بحث سے خلافت مآب کی حقانیت کا پول کھل جائے گا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اپنی جماعت