ہوگئی۔ اس کے بعد وہ کس طرح بستر ہلاکت پر ڈالی گئی۔ اس میں مورخ مختلف البیان ہیں۔ چونکہ اس کی تشریح غیرضروری ہے۔ اس لئے قلم انداز کر دی گئی۔ (ایپی سوڈ آف دی باب ص۴۵)
۲۵… مرزاحسین علی نوری معروف بہ بہاء اﷲ
مرزاحسین علی معروف بہ بہاء اﷲ ۱۸۱۷ء میں موضع نور علاقہ مازندراں میں پیدا ہوا۔ اپنے سوتیلے بھائی مرزایحییٰ معروف بہ صبح ازل سے قریباً تیرہ سال بڑا تھا۔ بہاء اﷲ بھی ان چالیس بابیوں میں داخل تھا جو ناصرالدین شاہ ایران سے باب کے قتل کا انتقام لینے کی سازش کی تھی۔ خاص عازمین قتل تین بابی ملا فتح اﷲ قمی، صادق زنجانی اور باقرنجف آبادی تھے۔ بتاریخ ۱۳؍ذیقعدہ ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۵؍ستمبر ۱۸۵۲ء شاہ شکار کے لئے سوار ہوا تو یہ تینوں شاہ کی طرف بڑھے۔ شاہ نے خیال کیا کہ شاید مظلوم وستم رسیدہ اشخاص ہیںجو اپنی درخواست پیش کریں گے۔ اس لئے ان کو نزدیک آنے دیا۔ جب قریب پہنچے تو صادق زنجانی نے جیب سے پستول نکال کر شاہ پر چلادیا۔ شاہ زخمی ہوا۔ لیکن بحالہہ گھوڑے پر سوار رہا۔ یہ دیکھ کر فتح اﷲ قمی نے جھپٹ کر شاہ کو گھوڑے سے کھنیچا تاکہ زمین پر گرا کر گلا کاٹ دے۔ شاہ زمین پر گرپڑا۔ یہ دیکھ کر شاہ کے ایک نوکر نے بڑھکر فتح اﷲ کے منہ پر زور سے ایک گھونسا رسید کیا اور وہ گر پڑا۔ اب ملازم نے میان میں سے تلوار نکالی اور صادق زنجانی کی گردن ماردی۔ اس اثناء میں دربار شاہی کا ایک منشی بھی پہنچ گیا اور شاہ کے جسم کی ڈھال بننے کے لئے اپنے آپ کو شاہ پر گرادیا۔ اتنے میں اور پیادے بھی پہنچ گئے اور انہوں نے زندہ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا۔ شاہ کو گولی کا جو زخم لگا وہ مہلک نہیں تھا۔
اس حادثہ کے بعد جب بابیوں کے خلاف داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے ایران کے ہر گوشہ سے نکل کر بغداد کا رخ کیا۔ بغداد میں کثیرالتعداد بابی جمع ہوگئے۔ کربلا اور نجف کے شیعی علماء یہ دیکھ کر کہ بابی لوگ شیعی مشاہد مشترفہ کے قریب آجمع ہوئے ہیں۔ بابیوں کے قیام بغداد کی مخالفت کرنے لگے۔ حکومت ایران نے بھی اپنے استنبولی سفیر کو ہدایت کی کہ وہ دولت عثمانیہ سے درخواست کرے کہ بابیوں کو بغداد سے کسی دوسرے علاقے میں منتقل کر دے۔ اس درخواست کے بموجب باب عالی نے بابیوں کو بغداد سے استنبول چلے جانے کا حکم دیا۔ یہ لوگ چار مہینے استنبول میں رہے۔ لیکن چونکہ بابی آج کل کے مرزائیوں کی طرح بڑے مفسد لوگ