آخر رمضان ۲۵۵ھ میں خروج کیا تھا۔ انجام کار اپنی حکومت کے چودہ برس چار مہینے بعد یکم؍صفر ۲۷۰ھ کو مارا گیا۔ وہ پونے چار سال ابوالعباس اور موفق سے برسر مقابلہ رہا۔ اس کے مارے جانے کے بعد اس کے تمام مقبوضات ازسرنو عباسی علم اقبال کے سایہ میں آگئے۔ ابن اثیر اور ابن خلدوننے زنگیوں کے گمراہ کنندہ کا نام علی بن محمد کی بجائے حبیت لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اسی کا دوسرا نام یا لقب ہو۔
دشمن اہل بیت
علی بن محمد اہل بیت نبوت کا بدترین دشمن تھا۔ خصوصاً امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے سخت عناد رکھتا تھا۔ اس حرمان نصیب نے ایک تخت بنوارکھا تھا جسے جامع مسجد کے صحن میں بچھواتا اور اس پر بیٹھ کر حضرت علی مرتضیٰؓ پر معاذ اﷲ سب وشتم کرتا۔ اس کے پیرو بھی اس شیطنت میں اس کے ہم سفر ہوتے۔ اس نابکار نے ایک مرتبہ اپنے لشکر میں سادات کرام کی خواتین محترمہ کو دو دو تین تین درم میں بذریعہ نیلام عام فروخت کیا تھا اور ایک ایک حبشی نے دس دس سیدانیاں گھر میں ڈال رکھی تھیں۔
علی بن محمد اور اس کے زنگی پیروؤں کی چیرہ دستیوں کے واقعات (تاریخ کامل ابن اثیر ج۷ ص۶۷تا۱۲۳) تک سنین وار درج ہیں۔ تاریخ کامل کے علاوہ تاریخ ابن خلدون، کتاب الاشاعہ فی اشراط الساعۃ اور تاریخ الخلفاء للسیوطی بھی اس کے مأخذ ہیں۔
۱۴… حسین بن زکرویہ قرمطی
حسین بن زکرویہ انتہا درجہ کا ملحد اور قرمطی ہونے کے باوجود مہدویت کا مدعی تھا۔ بادیہ نشینوں کے اکثر قبائل نے اس کو مہدی موعود یقین کرتے ہوئے اس کی پیروی اختیار کی۔ اس کے چہرے پر ایک تل تھا جس کی نسبت کہا کرتا تھا کہ یہ حق تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اسی تل کی وجہ سے صاحب الشامہ کے لقب سے مشہور ہوگیا تھا۔ اپنے نام کے ساتھ مہدی امیر المؤمنین لکھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کا عم زاد بھائی عیسیٰ بن مہدی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا میرے نزدیک تم ہی مدثر ہو جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ اس نے خوش ہوکر عیسیٰ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔
جب حسین قرمطی کی جمعیت زیادہ ہوئی تو اپنے مریدوں کو مرتب ومسلح کر کے دمشق پر چڑھ دوڑا اور جاتے ہی شہر کا محاصرہ کر لیا۔ دمشق عرصہ تک محصور رہا۔ بالآخر اہل دمشق نے تنگ