ٹریکٹ کی ان کے پاس ہوں وہ سب تلف کر دی جائیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۳۳ئ)
’’جب نظارت تالیف وتصنیف کو اس ٹریکٹ کی اشاعت کا علم ہوا تو اس نے اس کی اشاعت ممنوع قرار دے دی اور اسے بحق جماعت ضبط کر کے تلف کر دینے کا حکم دے دیا۔ نیز ٹریکٹ شائع کرنے والے سے جواب طلب کیا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍دسمبر ۱۹۳۴ئ)
غور فرمائیے کہ اب ریاست کے مکمل ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ خلیفہ فرماتے ہیں: ’’اب تک تین رسالوں کو میں اس جرم میں ضبط کر چکا ہوں۔‘‘
(الفضل مورخہ ۴؍مارچ ۱۹۳۶ئ)
اس سلسلہ میں خلیفہ کی ریاست کی سیاست کا سب سے گندا پہلو یہ ہے کہ جن کتب اور اخبارات کو ضبط نہیں کر سکتے یا کرواسکتے۔ ان کے متعلق اپنی رعایا یا مریدوں کو یہ ارشاد ہوتا ہے کہ وہ اسے پڑھیں نہیں۔ کیا ایک مذہبی، دینی اور تبلیغی جماعت جنہوں نے دوسروں تک اپنی بات پہنچائی ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے تعزیری اقدام ان کے لئے باعث فخر ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ روزنامہ نوائے پاکستان جو وقتاً فوقتاً خلیفہ کے متعلق بعض اہم حقائق کو منظر عام پر لاتا رہتا ہے۔ خلیفہ نے اپنے ہوم سیکرٹری (ناظر امور عامہ) کے ذریعہ اس اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقعہ پر اعلان ہوچکا ہے کہ: ’’حقیقت پسند پارٹی کا شائع کردہ لٹریچر کوئی احمدی نہ پڑھے۔ بلکہ پھاڑ کر پھینک دے یا خلیفہ کے ہوم سیکرٹری یا محکمہ حفاظت مرکز کے پاس بحفاظت پہنچادیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۷؍اپریل ۱۹۵۷ئ)
خلیفہ اپنے دارالخلافہ میں جس طرح لوگوں کو اپنی ریاست کا مطیع اور فرمانبردار بنا رکھتے ہیں۔ باشندگان ربوہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے حاکم اعلیٰ ان کے خلیفہ ہیں۔ حکومت بھی ان کو خلیفہ کے چنگل سے نہیں بچا سکتی۔ ان کے سامنے قادیان سے لے کر ربوہ تک کی مثالیں موجود ہیں کہ حکومتی نظام سنگین واردات کی کھوج لگانے میں ناکام رہا۔ اگر کھوج لگا سکا تو عدالت میں جاکر مقدمات فیل ہو گئے۔ ان حالات میں خلیفہ کو راعی اور اپنے آپ کو رعایا نہ سمجھیں تو کیا کریں۔
خلیفہ کی خروجی تدابیر
سیاست کاری اور سیاست بازی خلیفہ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مذہب یا تو محض زیب داستان کے لئے ہے یا اس کا مصرف سیاست کی پردہ داری ہے۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے اور ان