ادیان کے پیروان پر ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ تمام ملتیں مٹ جائیں گی اور صرف ایک دین اسلام دنیا میں باقی رہ جائے گا۔ تمام دعوتی اور تبلیغی فرائض سے فراغت پاکر حضرت مسیح علیہ السلام مدینہ منورہ جائیں گے اور وہاں شادی کریں گے اور ان کے اولاد ہوگی۔
کچھ مدت کے بعد جب مسیح علیہ السلام کا پیمانہ حیات لبریز ہو جائے گا تو مدینہ منورہ کی زمین ایک اور پیغمبر کو اپنے دامن میں لینے کے لئے اپنا آغوش شوق پھیلا دے گی اور آپ افضل الانبیاء والرسلﷺ کے مقبرۂ مبارک میں دفن کئے جائیں گے۔
اس رسالہ میں ان مشاہیر کے کچھ جزوی حالات حوالۂ قرطاس کئے جاتے ہیں جنہوں نے خدائی، پیغمبری، مسیحیت یا مہدویت کے دعوؤں کے ساتھ خروج کر کے خلق خداکو گمراہ کیا اور آخرکار اپنی اپنی اسلامی حکومت کے ہاتھوں کیفرکردار کو پہنچے۔ وباﷲ التوفیق!
۱… اسود عنسی مدعی نبوت
اسود نے حضور سید کون ومکان علیہ التحیہ والسلام کے آخری ایام سعادت میں یمن کے اندر دعوائے نبوت کیا۔ اہل نجران اور قبیلہ مذحج نے اس کی متابعت اختیار کی۔ اسود کا قبیلہ عنس قبیلۂ مذحج ہی کی ایک شاخ تھا۔ جب اسود کی جمعیت بڑھی تو اس نے تھوڑے ہی دنوں میں پہلے نجران پر اور پھر یمن کے اکثر دوسرے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ انجام کار یمن کے دارالحکومت صنعاء کا رخ کیا۔ وہاں کے عامل شہر بن باذانؓ نے اس کا مقابلہ کیا۔ لیکن مغلوب ہوکر جرعۂ شہادت لے لیا۔ جب آنحضرتﷺ کو ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے مسلمانان یمن کو لکھ کر بھیجا کہ جس طرح بن پڑے اسودی فتنہ کا استیصال کریں۔
اہل ایمان اس فرمان سے بڑے قوی دل ہوئے اور یمن کے مختلف علاقوں میں درپردہ حربی تیاریاں ہونے لگیں۔ لیکن دارالحکومت صنعاء کے مسلمان اسود کے مقابلہ میں اپنی حربی کمزوری محسوس کر رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے مصلحت وصوابدید اس میں دیکھی کہ عسکری اجتماع کے بجائے مخفی سرگرمیوں سے اس کی جان لیں۔ اسود نے شہر بن باذانؓ کے واقعۂ شہادت کے بعد ان کی بیوی آزاد کو جبراً گھر میں ڈال لیا تھا اور آزاد کے عم زاد بھائی حضرت فیروز دیلمیؓ جو شاہ حبشہ کے خواہرزادہ تھے آزاد کو اسود کے پنجہ بیداد سے آزاد کرانے کے لئے سخت فکر مند تھے۔
مسلمانوں نے آزاد کو اپنا رازدار بنایا اور اس کے مشورہ کے بموجب ایک رات چند مسلمان نقب لگا کراسود کے محل میں گھس گئے۔ فیروز دیلمیؓ نے جو ایک قوی البحثہ جوان تھے اچانک