زوال پذیر حکومت کے حصول کی دعا
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلّی مکہ معظمہ میں بیت اﷲ کا طواف کررہا تھا۔ لوگوں نے اس کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا۔ الٰہی! تو نے فرمایا ہے اور تیرا قول حق ہے۔ ’’وتلک الایام نداولہا بین الناس‘‘ {اور ہم ان ایام کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔} جب یہ حالت ہے تو بار خدایا! تو مجھے دولت وحکومت دے۔ لوگوں میں سرفرازی بخش۔ ابن ابی محلّی نے بارگاہ خداوندی میں زوال پذیر حکومت کی تو درخواست کی۔ لیکن حسن عاقبت کا سوال نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ واہب العطایا نے اس کو دولت وحکومت سے توچند روز سرفرازی بخشی لیکن حسن خاتمہ کا حال معلوم نہیں۔
ابن ابی محلّی صاحب تصانیف تھا۔ اس کی مشہور کتابیں یہ ہیں: (۱)منجنیق الصّخور فی الرد علیٰ اہل الفجور۔ (۲)وضاح۔ (۳)قسطاس۔ (۴)اصلیت۔ (۵)ہورج۔ (۶)ابوعلی قسطلی کے رسالہ کا رد وغیرہ۔ (کتاب الاستقصاء لا خبار دول المغرب الاقصیٰ وکتاب الیواقیت الثمینہ فی اعیان عالم المدینہ تالیف محمد البشیر ظافر الازہری)
۲۲… مرزاعلی محمد باب شیرازی
اگرچہ باطنیت مرتدانہ آزادیوں کا دروازہ کھول کر خود کتم عدم میں مستور ہوگئی۔ مگر اس کا زہریلا اثر بابیت اور مرزائیت کی شکل میں آج تک موجود ہے۔ بابیت کا بانی مرزاعلی محمد باب ۱۲۳۵ھ کو شیراز میں متولد ہوا۔ علی محمد مہدی موعود ہونے کا مدعی تھا۔ اس نے یہ سوچ کر کہ ابتداء ہی سے اپنی مہدویت کی رٹ لگائی تو لوگ اس کے سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ نہایت ہوشیاری سے ارادہ کیا کہ دعوائے مہدویت سے پہلے صاحب الزمان مہدی علیہ السلام کا باب یعنی واسطہ اور ذریعہ بنوں۔ غلام احمد قادیانی بھی ایسا ہی کرتا رہا۔ جب وہ دیکھ لیتا کہ اس کے بندگان مسحور پہلے دعوے کے متحمل ہوگئے تو ایک اور قدم اٹھا کر ان کے گلوں میں ایک اور دعویٰ کا طوق ڈال دیتا تھا۔
مرزاعلی محمد ۱۲۶۰ھ میں جب کہ اس کی عمر پچیس برس کی تھی۔ شیراز آیا اور اپنے آپ کو باب (دروازہ) کے لقب سے متعارف کرانا شروع کیا۔ بابیت سے اس کی یہ مراد تھی کہ وہ حضرت مہدی علیہ السلام کے فیوض کا جو ہنوز پردۂ غیب میں مستور ہیں واسطہ وذریعہ ہے۔ تھوڑی