سوشل بائیکاٹ
مسند خلافت کے حصول کے لئے خلافت مآب نے بیحد کوشش کی ور جب زمام خلافت ہاتھوں میں آگئی تو یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کس طرح اب خلافت کی بنیادیں مضبوط کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حسب ذیل تین حدود متعین کیں اور اپنے مریدوں کو ان دائروں کے اندر رہنے کی سختی سے تلقین کی۔ (۱)مسئلہ تکفیر۔ (۲)نماز جنازہ۔ (۳)سوشل بائیکاٹ۔
مسئلہ تکفیر
وہ مسلمان جنہوں نے مرزاغلام احمد کو نہیں مانا۔ انہیں کافر قرار دیا۔ اس مسئلہ کے اجراء سے شاطر سیاست کو یہ مقصود تھا کہ وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے مرید ہیں اور جنہوں نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے مسلمانوں سے کٹ جائیں اور اس طرح ہر وقت ان کی نگاہیں خلافت مآب ہی کی طرف لگی رہیں۔
نماز جنازہ
اسی طرح وہ مسلمان جنہوں نے شاطر سیاست کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی اپنے مریدوں کو ان کی نماز جنازہ ادا کرنے سے روک دیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں خلافت مآب کے مریدوں کے لئے جذبہ نفرت بھر جائے اور مریدوں کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہے کہ وہ ہر لمحہ خلافت مآب ہی کے احکام کی اطاعت میں اپنی خیر سمجھنے لگیں اور اس طرح ان کے دلوں میں خلافت مآب کی عظمت کے نشان منقش ہو جائیں۔
سوشل بائیکاٹ
اپنے مریدوں سے دو طرح کے سوشل بائیکاٹ کروائے اور اس سے بھی انہیں یہی مقصود رہا کہ ان کے مرید دوسری دنیا سے جدا ہو جائیں کہ ان کے لئے خلافت مآب کے بغیر جینا مشکل ہو جائے۔ چنانچہ ایک طرف اپنے مریدوں کو غیرمرزائیوں سے مذہبی تعلقات اور لین دین سے منع کیا اور دوسری طرف اپنی جماعت کے ان لوگوں سے معاشرتی تعلقات منقطع کرالئے گئے۔ جنہوں نے خلافت مآب سے کسی مسئلہ میں اختلاف کیا۔ اندرونی وبیرونی طور پر معاشرتی انقطاع تعلقات کا مقصد صرف اپنی خلافت کی بنیادیں استوار کرنا ہے۔ چنانچہ بیرونی انقطاع تعلقات کے لئے مسلمانوں کے ساتھ شادی اور نماز جنازہ کی ادائیگی کو ممنوع قرار دے دیا اور اس کے ساتھ ہی یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ جماعتی نظام کے پیش نظر غیر از جماعت دکانداروں (یعنی