تشریح
اس حدیث میں بھی دو نام قابل ہیں۔
۱… اناالحاشر…میں حاشر ہوں جس کے دین کی موجودگی میں ہی قیامت آئے گی اور لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔
۲… والمقفی… میں مقفّٰی ہوں۔ لفظ مقفی کے وحید اللغات ص۱۳۰میں مرقوم ہے کہ ’’فاذا قضیٰ فلا نبی بعدہ‘‘ پس فیصلہ ہوچکا ہے کہ نہیں ہے نبی پیچھے اس (محمدﷺ) کے۔ اور امام نودیؒ نے لفظ مقفّٰی کی تشریح کرتے ہوئے اس لفظ کے معنی یوں لکھے ہیں کہ مقفّٰی بمعنے عاقب ہے۔ اور ابن العربیؒ نے مقفّٰی کے معنی ’’ہو المتّبع للانبیائ‘‘ کئے ہیں۔ اس لئے امام نودیؒ نے دونوں قول ملا کر اپنی شرح میں خود فیصلہ فرمایا ہے کہ ’’ان المقف ہو الآخر‘‘
نتیجہ… جب آپ سب سے آخری نبی ہوئے تو لامحالہ آپ کے بعد کسی نبی کے آنے کی گنجائش نہیں۔
آپﷺ ہی فاتح ہیں … گیارھویں حدیث
’’عن ابی قتادہؓ مرسلاً (قال) رسول اﷲﷺ انما انا خاتم وفاتح واعطیت جوامع الکلم وفواتجہ‘‘ حضرت ابو قتادہؓ سے ثابت ہے کہ فرمایا رسول اﷲﷺ نے سوائے اس کے نہیں کہ میں خاتم ہوں اور فاتح ہوں اور دیا گیا ہوں میں جوامع کلمے اور فواتح۔
تشریح
روایت کیا اس حدیث کو بہیقی نے شعب الایمان میں اور (کنزالعمال ج۶ص۱۰۶)میں اس حدیث میں بھی حضور کا خاتم النّبیین ہونا سورج کی طرح چمک رہا ہے۔ دیکھئے ’’وانما انا خاتم‘‘
۱… وانما انا خاتم…بلاشک میں خاتم الانبیاء ہوں فرما کر ثابت کردیا کہ اب نبیوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور صرف محمد ہی دریائے نبوت کے آخری شناور ہیں۔
۲… فاتح… میں فاتح ہوں فرما کر ثابت کردیا کہ تمام کفروگمراہی جوروظلم پر قابو پانے کے لئے حق وصداقت کی شمشیر عطا فرما کر خدائے واحد نے جابر وظالم، ہستیوں، اورمغرور سروں کو قلم کرنے کے لئے صرف محمدﷺ ہی کو آخر میں فاتح بنا کر بھیجا ہے۔ جب تک فاتح کی حکومت دنیا میں موجود ہو اور اس کا بادشاہ اس مفتوحہ حکومت کی نگرانی کررہا ہو۔ تو پھر کسی سرپھرے کی مجال نہیں کہ اس کے علاقہ میں قدم رکھے اور اپنے کو فاتح بھی کہلائے۔