شلغمانی کا قتل
شلغمانی اور اس کے اخص پیروؤں کے مقدمہ کی تحقیقات خاص خلیفہ راضی باﷲ کے دربار میں ہوا کرتی تھی۔ ان صحبتوں میں فقہاء اور قضاۃ کے علاوہ سپہ سالار بھی شریک ہوتے تھے۔ آخر فقہاء نے فتویٰ دے دیا کہ شلغمانی اور اس کا رفیق ابن ابی عون مباح الدم ہیں اور ان کی فرد قرار داد جرم میں برأت کا کوئی پہلو نہیں نکل سکتا۔ چنانچہ شلغمانی اور ابن ابی عون ۲؍ذیقعدہ ۳۲۲ھ کو مصلوب کر دئیے گئے۔ جب صلیب پر دونوں کی زندگی کا خاتمہ ہوچکا تو لاشیں اتار کر جلادی گئیں۔ شلغمانی کے پیرو بجائے اس کے کہ اٹھائیس سال گزرنے کے بعد اس دن کا جلوہ دیکھیں۔ جس دن (معاذ اﷲ) شریعت مصطفوی (علی صاحبہا التحیہ والسلام) کو مٹانے کا شلغمانی خواب پورا ہوتا اور اس کی جگہ شلغمانی شریعت جاری ہوتی بھاگ بھاگ کر منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ لیکن باوجود اس کے ان کے یقین واذعان میں کوئی فرق نہ آتا۔
سابق وزیراعظم کا قتل
شلغمانی کے مصلوب ہوتے وقت اس کا معزز متبع حسن بن قاسم سابق وزیراعظم شہر رقہ میں تھا۔ خلیفہ نے اس کے قتل کا حکم بھیج دیا اور اس کا سر عبرت روزگار بننے کے لئے بغداد میں لایا گیا۔ ابن ابی عون جس نے تھپڑ مارنے کی عوض شلغمانی کی داڑھی چوم کر اس کو اپنا خالق ورازق بتایا تھا۔ بہت بڑا ادیب اور بلند پایہ مصنف تھا۔ کتاب النواحی، کتاب الجوابات المسکتۃ، کتاب التشبیہات، کتاب بیت مال المسرور،کتاب الدواوین، کتاب الرسائل اس کی مشہور تصنیفیں ہیں۔ (معجم الادباء یاقوت حموی مطبوعہ لندن ص۲۹۶، ابن خلکان جلد اوّل ص۱۹۰، کتاب الفرق بین الفرق ص۲۴۹، تاریخ کامل ابن اثیر ج۸ ص۹۲،۹۳)
۱۷… عبدالعزیز باسندی
عبدالعزیز موضع باسند علاقہ صغانیاں کا رہنے والا تھا۔ اس نے ۳۲۲ھ میں دعوائے نبوت کر کے ایک پہاڑی مقام میں دام تزویر بچھایا۔ یہ شخص بڑا شعبدہ باز تھا۔ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتا تو مٹھی سرخ دیناروں سے بھری ہوتی تھی۔ اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظربندیوں نے ہزارہا تہی دستان قسمت کے زورق ایمان کو متلاطم کر دیا۔ لوگ پروانہ وار اس کی طرف دوڑے اور اس کی خاک پا کو سرمہ چشم بنانے لگے۔
باسندی کی صدائے دعوت اس نظام اور بلند آہنگی سے اٹھی کہ اہل شاش اور دوسرے