انہوں نے کمر ہمت باندھی اور پھر دعوت مباہلہ دی اور کہا کہ آؤ اسی بات پر مباہلہ کر لو کہ تم خلیفہ برحق ہو۔ لیکن خلافت مآب کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر معترضین نے تنگ آ کر اپنی ایک عزیزہ کا خط شائع کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ جب اپنے باپ کا ایک خط لے کر خلافت مآب کے حضور میں گئی تو اسے کس قیامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس خط کے ساتھ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر کسی کویہ خیال گزرے کہ خط جعلی ہے تو اس کے لئے ہم تجویز پیش کر تے ہیں کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے جس میں چند ہندو، کچھ مسلمان وکیل ہوں دو ایک جج ہوں ایک وفد شاطر سیاست کا اور ایک مسلمانوں کا ہو اس کمیشن کی موجودگی میں وہ لڑکی اپنا بیان دے سکے گی۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ اس کمیشن کا کوئی فرد لڑکی کے نام کا اعلان نہیں کرے گا۔
قادیانی خاتون کابیان
’’میں میاں صاحب کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں اور لوگوں میں ظاہر کر دینا چاہتی ہوں کہ وہ کیسی روحانیت رکھتے ہیں۔ میں اکثر اپنی سہیلیوں سے سنا کرتی تھی کہ وہ بڑے زانی شخص ہیں۔ مگر اعتبار نہیں آتا۔ کیونکہ ان کی مؤمنانہ صورت اور نیچی شرمیلی آنکھیں ہرگز یہ اجازت نہ دیتی تھیں کہ ان پر ایسا بڑا الزام لگایا جاسکے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میرے والد صاحب نے جوہر کام کے لئے حضور سے اجازت حاصل کیا کرتے ہیں اور بڑے مخلص احمدی ہیں۔ ایک رقعہ حضرت صاحب کو پہنچانے کے لئے دیا جس میں اپنے ایک کام کے لئے اجازت مانگی تھی۔ خیر میں رقعہ لے کر گئی۔ اس وقت میاں صاحب نے مکان (قصر خلافت) میں مقیم تھے۔ میں نے اپنے ہمراہ ایک لڑکی لی جو وہاں تک میرے ساتھ گئی اور ساتھ ہی واپس آگئی۔ چند دن بعد مجھے پھر ایک رقعہ لے کر جانا پڑا۔ اس وقت بھی وہی لڑکی میرے ہمراہ تھی جونہی ہم دونوں میاں صاحب کی نشست گاہ میں پہنچیں تو اس لڑکی کو کسی نے پیچھے سے آواز دی۔ میں اکیلی رہ گئی۔ میں نے رقعہ پیش کیا اور جواب کے لئے عرض کیا۔ مگر انہوں نے فرمایا کہ میں تم کو جواب دے دوں گا۔ گھبراؤ مت۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کر رہے ہیں ان سے مل آؤں۔ مجھے یہ کہہ کر اس کمرے کے باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگا کر اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ کا چوتھا کمرہ تھا۔ میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح کے خیال دل میں آنے لگے۔ آخر میاں صاحب نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برا فعل کروانے کو کہا، میں نے انکار کیا۔ آخر زبردستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت برباد کر دی اور ان کے منہ سے اس قدر بدبوآرہی تھی کہ مجھ کو چکر آگیا اور وہ گفتگو بھی ایسی کرتے تھے کہ بازاری آدمی