عروج آج کل ربوہ میں دم توڑرہا ہے۔ لہٰذا خلیفہ ربوہ کی آمریت کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے سے پیشتر آمریت کو اسلامی نظریات کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔
اسلام اور آمریت
اسلامی نظریات کے مطابق آمریت ایسے گھناؤنے نظام کا نام ہے جو نہ صرف انسانوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہے بلکہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی قابل نفرت ہے۔ چنانچہ جب سرور کائناتﷺ دنیا میں مبعوث ہوئے تو اس وقت دنیا مختلف قبائل میں بٹی ہوئی تھی اور ہر قبیلے کا سردار ہی حکمران مطلق سمجھا جاتا تھا۔ ہر قبیلہ آمریت وحیوانیت کا اچھا خاصہ اکھاڑہ تھا اور بربریت وجوراستبداد کی گھٹا ٹوپ گھٹائیں چاروں طرف چھائی ہوئی تھیں کہ ایسے میں سیدی ومولائی حضرت محمد رسول اﷲﷺ نے دنیا کو جو سب سے پہلا سبق دیا وہ یہ تھا کہ کسی شخص کے احکام وفرمان کی پابندی سراسر ناجائز ہے۔ بلکہ تیرگیوں اور ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے لوگو! ساری دنیا میں اگر کسی کے احکام کی پابندی ضروری ہے۔ اگر سارے عالم میں کسی کے فرمان کی اطاعت لازم ہے تو وہ صرف اور صرف وہی رحمن ورحیم خدا ہے جو سارے جہاں کی ربوبیت کرتا ہے۔ جس نے تمہیں پیدا کیا اور آخر جس کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے۔ چنانچہ فرمایا: ’’الحمد ﷲ رب العالمین‘‘ کہ اے مومنو! حمد وثنا کے لئے صرف اور صرف وہی ہستی مختص ہے جو ساری دنیا کی ربوبیت کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ جس کے احکام کا ماننا ضروری اور جس کے فرمان کی اطاعت فرض ہے۔ پس ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘ کی تعلیم دے کر ہمارے آقا سیدی ومولائی ’’ختم المرسلینﷺ‘‘ نے ساری دنیا پر واضح کر دیا کہ احکام وہدایات کا جاری کرنا خدا کا کام ہے اور کوئی انسان بھی جو اپنے دماغ پر بھروسہ کر کے دنیا سے اپنے فرمان منواتا ہے اور اس سے اسے اپنی بڑائی ثابت کرنا مقصود ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کے نزدیک قابل احترام نہیں ہے۔ بلکہ جو شخص بھی دنیا میں اپنی حکومت قائم کرتا ہے وہ خائن ہے اور خداتعالیٰ کے احکام کا بدترین دشمن ہے۔ پس یہ امر مسلم ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنے اس محبوب کو بھی دنیا پر اپنے ذہنی نظریات منوانے کی اجازت نہیں دی۔ جس کے لئے اس نے زمین وآسمان پیدا کئے اور نیز جمہور سے مشورہ لینا اشد ضروری قرار دیا ہے۔ سرور کائناتﷺ کی زندگی سے ہمیں بیشتر واقعات اس بات کے ثبوت میں ملتے ہیں کہ حضورﷺ نے کوئی قدم اٹھانے سے پہلے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا اور پھر اس مشورے کی روشنی میں فیصلہ صادر کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرور کائناتﷺ صرف ان امور میں جمہور مسلمانوں سے مشورہ لیتے تھے کہ جن کے متعلق انہیں اﷲتعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت