تشریح
حضرت محمد رسول اﷲﷺ نے جہاد کی تیاری کی اور اپنی گدی پر مدینہ منورہ میں حضرت علی مرتضیٰؓ کو چھوڑا تاکہ عورتوں، بچوں، بیماروں اور کمزور بوڑھوں کی حضورﷺ کے بعد نگرانی کرسکیں (اور شاید یہ بھی سبب تھا کہ حضرت علیؓ کی آنکھیں بھی دکھ رہی تھیں۔) جب مجاہدین کی فوج مدینہ منورہ سے دور نکل چکی تو کسی نے حضرت علیؓ کی جوانی اور طاقت کے بارے میں کچھ کہا تو حضرت علیؓ فوراً مدینہ منورہ سے دوڑے اور فوج میں شامل ہوگئے۔ حضورﷺ کو معلوم ہوا کہ علیؓ بھی فوج میں شامل ہیں۔ تو حضورﷺ نے پوچھا کہ تم مدینہ منورہ کو کیوں چھوڑ آئے ہو؟ تب حضرت علیؓ نے اس آدمی کے بارے میں عرض کیا کہ مجھے ایسا کہا گیا۔ تب حضورﷺ نے جوش بھرے الفاظ میں تمام فوج کے سامنے تقریر فرمائی کہ اے علیؓ! لوگوں کے طعن کا خیال نہ کرو۔ تو ایسا ہی مجھ سے تعلق رکھتا ہے جس طرح ہارون موسیٰ سے رکھتے تھے۔
جب بھی وہ طور وغیرہ پر تشریف لے جاتے تھے تو ہارون علیہ السلام ان کی گدی پر رونق افروز ہوتے تھے۔ تو بھی اسی طرح میری گدی پر بیٹھ جا۔ لیکن ایک ضروری بات ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ موسیٰ کے بعد گدی پر بیٹھنے والے ہارون تو نبی اور خلیفہ تھے اور تو میری گدی پر بیٹھنے والا امتی خلیفہ ہے۔میرے بعد تو کوئی نبی ہی نہیں ہے۔ اب سوچو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اس تقریر محمدی کی کس طرح برے طریقہ سے مخالفت کررہے ہیں اور پھر دعویٰ کرنے والے اس تقریر محمدی کی کس طرح برے طریقہ سے مخالفت کررہے ہیں اور پھر دعویٰ ہے کہ ہم مجدد، مہدی، امام ومسیح ہیں۔ حالانکہ محمدی افعال وکردار، رفتار وگفتار کی مخالفت کرنے والے کا ٹھکانہ ازروئے قرآن وحدیث دوزخ ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو بچائے۔ اور محفوظ رکھ۔ آمین۔ ثم آمین۔
نوٹ… تشریح بالا کی تصدیق خود حضرت علی کی زبانی حدیث ۳۴؍میں پڑھئے۔
فرمان مرتضوی … چونتیسویں حدیث
’’عن علیؓ قال بین کتفیہ خاتم النّبوۃ وہو خاتم النّبیین‘‘
(شمائل ترمذی ص۲،۳؍ایچ ایم سعید کمیٹی کراچی)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور وہ سب نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔
تشریح
یہ حدیث ہماری تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ اس میں خود حضرت علیؓ نے صاف الفاظ