علیحدگی اختیار کی انہوں نے اس شخص کو منافق کہہ کر اپنے مریدوں کی توجہ اصل حقائق سے ہٹا دی اور معترضین ومخرجین کے رشتہ داروں سے ان کے خلاف تحریریں لے کر شائع کیں اور اس طرح اپنے مریدوں پر یہ ظاہر کرنے کی سعی فرمائی کہ مجھ پر اعتراض کرنے والے بڑے گھٹیا ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے جہاں اور خلاف اخلاق باتیں کیں وہاں اپنے معترضین کو تو وہ اس کہہ کر پکارا۔ حالانکہ دوسروں کو ادب سے پکارنا ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کے لئے اشد ضروری ہے۔ لیکن وہ مخرجین، مخالفین اور معترضین کو یوں خطاب کرتے ہیں۔ جیسے کسی چپڑاسی یا بھنگی کو اور اپنے کسی پوتے کا بھی ذکر کریں تو حضرت فلاں صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھے ان کے اس انداز خطابت پر اعتراض نہیں۔ لیکن اپنے قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اخلاق کا یہ سب سے بڑا علمبردار کتنی گھٹیا باتیں کرتا ہے اور دنیا کی آنکھوںمیں کس طرح دھول جھونک کر اپنی خلافت کا علم لہراتا ہے اور بھولے بھالے اندھی عقیدت رکھنے والے مرید یہ نہیں سمجھ سکتے کہ محمد رسول اﷲﷺ کا نام لے کر چندہ کی تحریک کرنے والا یہ تقدس مآب پست اخلاق کی کس منزل پر بھول بھلیوں میں مبتلا ہے۔
اپنے منہ میاں مٹھو
شاطر سیاست کی کوئی تقریر اور کوئی تحریری ایسی نہیں جس میں اپنی تعریفیں نہ کی گئی ہوں۔ میں نے یہ کر دیا۔ میں نے وہ کر دیا۔ میں نے یورپ اور ایشیا میں اتنے مشن کھولے۔ میں نے سورۂ فاتحہ کا ایسا ترجمہ کیا ہے کہ آج تک کسی کو نہیں سوجھا۔ میں مٹ گیا تو محمد رسول اﷲﷺ مٹ جائیں گے۔ میں جب مسند خلافت پر بیٹھا تو جماعت کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ لیکن میں نے جماعت کو بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ ساری دنیا میری قابلیت کے ترانے گاتی ہے۔ میں نے جو تفسیر کبیر لکھی ہے ابتدائے آفرنیش سے آج تک کسی نے نہیں لکھی:’’میری اطاعت میں خدا کی اطاعت اور میری نافرمانی میں خدا کی نافرمانی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۴؍ستمبر ۱۹۳۷ئ)
الغرض ان کی ’’میں‘‘ بہت مشہور ہے۔ آئیے! اب ذرا ان کی ’’میں‘‘ کا بھی محاسبہ کر لیں۔ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کے ترجمہ کا کام خداتعالیٰ کے فضل سے ختم ہوگیا۔ اس ترجمہ سے متعلق لوگوں کی رائے کا تو اس وقت پتہ لگے گا جب یہ ترجمہ چھپے گا۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہوچکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۵۶ئ)