گا۔ تماشائی ہر طرح سے امنڈ آئے۔ غضب ناک اہل شہر میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے محمد علی کے پاس پہنچ کر دو چار گھونسے نہ رسید کئے ہوں یا طمانچے مار مار کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا نہ کیا ہو۔ لوگوں نے اس کے کپڑے پھاڑدئیے۔ مدارس کے طلبہ جوق درجوق آکر اس کے منہ پر تھوکتے، گالیاں دیتے اور اینٹ پتھر پھینک رہے تھے۔ آخر ہزار ذلت ورسوائی کے بعد اس کا سر تن سے جدا کیا گیا۔ اس کے بعد تمام دوسرے بابی بھی عفریت اجل کے حوالے کر دئیے گئے۔ جب علی محمد باب کو بارفروشی کے مارے جانے کی خبر ملی تو وہ لگاتار انیس شبانہ روز روتا رہا۔ اس مدت میں اس نے سدرمق سے زیادہ غذا بھی نہ کھائی۔ (نقطۃ الکاف ص۱۸۶تا۲۰۸)
۲۴… زرین تاج معروف بہ قرۃ العین
زرین تاج ایک اعجوبۂ روزگار عورت گزری ہے۔ اس کا باپ حاجی محمدصالح قزوین کا ایک مشہور شیعی عالم تھا۔ والد نے اس کو گھر ہی میں اعلیٰ تعلیم دلائی۔ جب حدیث، تفسیر اور فقہ کے علاوہ الٰہیات وفلسفہ میں کامل دستگاہ حاصل کر چکی تو اس کی شادی ملا محمد کے ساتھ ہوگئی۔ جو مجتہد العصر ملا تقی کا فرزند اور جملہ علوم میں عالم مبتحر ہونے کے ساتھ ایک جوان صالح تھا۔
میں یہ درس تودریس کاسلسلہ تھا۔ لیکن وہ اس کی آڑ میں بابیت کی تبلیغ کرتی تھی۔ کربلاعراق میں ہے اور عراق ان ایام میں ترکی قلمرو میں داخل تھا۔ جب کربلا میں اس کی تبلیغی سرگرمیوں کا شہرہ ہوا اور کربلا کے ترک حاکم نے دیکھا کہ جو لوگ اس کے حلقہ درس میں شریک ہوتے ہیں وہ بابی ہوتے جارہے ہیں تو حاکم نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس کو کسی طرح اس کا علم ہوگیا۔ اس لئے نہایت مخفی طریق پر بغداد بھاگ گئی۔ وہاں پہنچ کر گورنر سے تبلیغ کی اجازت مانگی۔ گورنر نے کہاتم مسلمانوں کی متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالنے آئی۔ تم فی الفور ترکی عملداری سے نکل جاؤ۔ وہ بغداد سے کرمان شاہ اور کرمان شاہ سے ہمدان گئی۔ اس سفر میں اس نے بہت لوگوں کو باب کا پیرو بنادیا۔
مظہر فاطمہ ہونے کا دعویٰ
قرۃ العین سیدۃ النساء حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا کے مظہر ہونے کی دعویدار تھی۔ اسے بابیت میں اتنا غلو اور اتنا شغف تھاکہ غیربابیوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ وہ بابیوں کے سوا ہر کسی کو کافر اور ناپاک سمجھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بازار کی پکی ہوئی چیزیں حرام