مقدمہ
ختم نبوت کا عقیدہ
نبیوں اور رسولوں کی بعثت کا سلسلہ حضرت خاتم الانبیائﷺ کی ذات گرامی پر منقطع ہوگیا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس پر سطح ارضی کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر ملک، ہر زمانہ، ہر رنگ، ہر نسل اور ہر مذہب ومسلک کے کلمہ گو قریباً چودہ صدیوں سے برابر متفق چلے آتے ہیں۔ یہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنیادوں پر ایمان کی پوری قومی عمارت کھڑی ہے۔ اسی کی بقاء پر ملت موحدین کی وحدت واستحکام کا مدار ہے۔ اگر خدانخواستہ اس عقیدہ میں تزلزل واقع ہو تو اس کا اثر محض معتقدات ایمانیہ ہی پر نہیں پڑے گا بلکہ یہ تمدنی، معاشی، سیاسی، اور بین الاقوامی ہر اعتبار سے مسلمانوں کے لئے سخت ہلاکت آفریں ثابت ہوگا۔
مدعی نبوت کا ارتداد
سلف اور خلف کے تمام علمائے امت اس پر بھی متفق چلے آئے ہیں کہ ختم نبوت کامنکر دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو کوئی دعوائے نبوت کرے وہ مرتد اور واجب القتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممالک اسلامیہ میں قرن اوّل سے لے کر آج تک تمام مدعیان نبوت برابر موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہے۔ بشرطیکہ کوئی اسلامی حکومت ان پر قابو پاسکی۔ البتہ اگر کوئی متنبی قابو پانے سے پہلے تائب ہو گیا تو پھر اس سے تعرض نہیں کیا گیا۔
(کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ کام ہر شخص انفرادی طور پر بھی کرسکتا ہے جس طرح حدود کا کام حکومت وقت کا کام ہے۔ اسی طرح قتل مرتد کا حق بھی صرف حکومت کا کام ہے۔ انفرادی طور پر ایسے معاملات کو قطعاً ہاتھ میں نہیں لیا جاسکتا)
نزول مسیح علیہ السلام
حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی حیات اور قرب قیامت کو آسمان سے ان کے نازل ہونے کا عقیدہ بھی اسلامی مسلمات میں داخل ہے۔ یہ عقیدہ قریباً چالیس صحیح حدیثوں سے ثابت ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام قرب قیامت کو نازل ہوںگے تو عہدۂ نبوت پر سرفراز رہنے کے باوجود شریعت محمدی پر عمل پیرا ہوں گے اور ان کی حیثیت امت کے مجدد اعظم کی سی ہوگی۔ پس یہ امت محمدی کی کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس دین کی