نوٹ…
۱… معلوم ہونا چاہئے کہ جیسے رب حقیقی کی موجودگی میں کسی غیر کو خالق اور پروردگار خیال کرنے والا کافر مشرک، دائرہ، اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے۔
۲… حقیقی باپ کی موجودگی میں کوئی احمق کسی غیر کو باپ یا باپ کے برابر یا باپ کے ماتحت خیال کرتے ہوئے اپنی بزرگ والدۂ محترمہ کو مجبور کرے کہ وہ اس کی بھی اسی طرح بیوی کہلائے تو وہ بھی پاگل ودیوانہ ہے اور غیر شخص جو فرضی باپ بنایا گیا ہے۔ اگر وہی حرکت حقیقی باپ والی اس کی والدہ سے کرتا ہے تو وہ بھی واجب القتل وسنگسار ہے۔
۳… یہ بھی معلوم ہوا کہ دین محمدی صرف ایک ہی دین ہے۔ دوسرا دین افضل یا برابر ا اﷲ اور رسول کو ہرگز قبول نہ ہوگا۔
۴… جب دین ایک ہے تو اسی نبی کا ہے جو دین لے کر آیا تھا۔ اور وہی اکیلا نبی تا قیامت واجب الاحترام ہے۔ اس کی شریعت ہی ہمیشہ رہے گی جس طرح خدا کی موجودگی میں دوسرا خدا نہیں ہوسکتا۔ اور باپ کی موجودگی میں دوسرا باپ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہمیشہ ہمیش کے لئے مہر لگا دی گئی کہ صرف میں ہی نبی ہوں۔ اب میرے بعدکوئی بھی نبی نہیں ہوگا۔
تم سب سوال کئے جاو گے … اٹھارہویں حدیث
’’یاایہا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعد کم وانتم تسئلون عنی‘‘ (رواہ احمد) اے لوگو! بیشک میرے پیچھے کوئی نبی نہیں ہے۔ اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں اور تم سب مجھ سے پوچھے جائو گے۔
تشریح
اس حدیث پاک میں تمام جہان کو علانیہ طور سے حکم ہورہاہے کہ کان لگا کر سنو۔ اور بالکل شک نہ جانو۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ جب کوئی نبی ہی نہیں تو تمہارے بعد کوئی امت بھی نہیں۔ میرے رب کا مجھ کو صاف یہ حکم ہے کہ میں تم سب کو بتا دوں کہ اب صرف میں ہی تمام جہاں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اگرچاہوں تو یہ ارشاد خداوندی پڑھ لو۔ ’’قل یا ایہاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘ کہہ دے (اے میرے پیارے نبی) تحقیق میں رسول ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کا تم سب کی طرف۔ (پارہ نمبر۹ رکوع نمبر۹) غرضیکہ مندرجہ بالا مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ اب قیامت تک کسی نبی کی مطلق ضرورت نہیں۔ پھر اگر کوئی سرپھرا نبوت کا دعویٰ کرے یا کوئی کسی غیر کو نبی مان بیٹھے تو اس کے کافر ہونے میں بھی شک نہیں۔