حارث پر جنود ابلیس کی نگاہ التفات
جب جنود ابلیس نے حارث کو اپنی نگاہ التفات سے سرفراز کر کے اس پر الہام والقاء کے دروازے کھولے تو اس کو ایسے ایسے جلوے دکھائی دینے لگے جو پہلے کبھی مشاہدہ سے نہیں گزرے تھے۔ اس کے سر پر کسی مسیحا نفس شیخ طریقت کا ظل سعادت لمعہ افگن نہیں تھا۔ جس کی طرف رجوع کرتا اور وہ اسے ابلیسی اغوا کوشیوں پر متنبہ کر کے صراصر ضلالت سے بچاتا۔ اس نے اپنے باپ کو جو موضع حولہ میں رہتا تھا لکھ بھیجا کہ جلد آکر میری خبر لو۔ کیونکہ مجھے بعض ایسی چیزیں دکھائی دینے لگی ہیں جن کی نسبت مجھے خدشہ ہے کہ کہیں شیاطین کی تلبیس نہ ہو۔ یہ پڑھ کر احمق باپ نے اس کو ورطۂ ہلاکت سے نکالنے کی بجائے الٹا اس کے سامنے ضلالت وظلمت کا جال بچھا دیا اور لکھ بھیجا بیٹا! تو اس کام کو بے خطر کر گزر جس کے لئے تمہیں حکم ہوتا ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ (ترجمہ) کیا میں تم کو بتلاؤں کہ شیاطین کس کے پاس آیا کرتے ہیں۔ وہ ایسے شخص پر نازل ہوتے ہیں جو دروغ گو بدکردار ہو۔ (۲۶:۲۲۱) اور تو نہ دروغ گو ہے اور نہ بدکردار۔ اس لئے کسی قسم کے اوہام اپنے پاس نہ پھٹکنے دے۔
لیکن حارث کے باپ کا یہ استدلال قطعاً جہالت پر مبنی تھا۔ کیونکہ اس سے اگلی آیت کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت ان دروغ گو وبدکردار کاہنوں کے باب میں نازل ہوئی تھی۔ جنہوں نے غیب دانی کے دعاوی کے ساتھ تقدس کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ آیت کے مفہوم میں قطعاً یہ چیز داخل نہیں کہ شیاطین کاہنوںکے سوا دوسروں کو اپنی وحی والقاء سے نہیں نوازتے۔
حارث کے استدراجی تصرفات
چونکہ حارث بڑا عابد ریاضت کش تھا اور نفس کشی کا شیوہ اختیار کر کے اپنے اندر ملکوتی صفات پیدا کر لئے تھے۔ اس سے عادت مستمرہ کے خلاف بعض محیرالعقول افعال صادر ہوتے تھے۔ مگر یہ افعال جو محض نفس کشی کا ثمرہ تھے۔ ان کو تعلق باﷲ سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ مسجد میں ایک پتھر پر انگلی مارتا تو وہ تسبیح پڑھنے لگتا۔ موسم گرما میں لوگوں کو موسم سرما کے پھل اور میوے اور جاڑے میں تابستان کے پھل پیش کرتا بعض اوقات کہتا آؤ میں تمہیں موضع دیر مراں (ضلع دمشق) سے فرشتے نکلتے دکھاؤں۔ چنانچہ حاضرین برایٔ العین دیکھتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب کہ شیاطین ہر روز کسی نہ کسی نوری شکل میں ظاہرہوکر حارث کو یقین