مذہب فریب بن چکا ہے
بے بس جہاں کا خدا ہے
غرض گواہوں نے آمریت مآب کی خوشی کے لئے دروغ گوئی اور کذب بیانی سے دریغ نہ کیا اور جو جی میں آیا کہہ دیا اور بعض باتوں میں تو اخلاقی اقدار کی وہ مٹی پلید کی کہ انہیں رقم کرتے ہوئے صفحہ قرطاس پر قلم رک رک جاتا ہے۔ لیکن شاطر بے مثل اس قسم کی بداخلاقی پر داد تحسین دیتے ہیں اور شاباش کے ڈونگرے برستے ہوئے خوشامدی گواہوں کی پیٹھ ٹھونکتے اور اس بداخلاقی کو مؤمنانہ فراست سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو ایک گواہ کا بیان اور اس پر شاطر سیاست کا تبصرہ۔ گواہ رقمطراز ہے: ’’اﷲ رکھا ایک احمدی سلطان احمد بسرا کے پاس سرگودھا گیا اور اسے کہا کہ ملازمت دلوادو۔ جس پر اس احمدی نے اﷲ رکھا سے کہا قادیان میں تم جو کچھ کر چکے ہو وہ ابھی ہمیں بھولا نہیں۔ اس پر اﷲ رکھا نے جواب دیا۔ مجھے معافی مل چکی ہے۔ اس پر وہ احمدی پھر بولا لاکھ معافی ملے تمہاری کارکردگی بھلائی جانے والی نہیں۔‘‘ (الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۵۶ئ)
گواہ کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق اﷲ رکھا عجزوانکساری سے کہتا ہے کہ مجھے میری خطا کی معافی مل چکی ہے۔ لیکن وہ احمدی اس کا جواب دیتا ہے کہ تمہیں لاکھ معافی ملے تمہارا قصور بھلایا نہیں جاسکتا۔
اس احمدی کا یہ جواب غیرمؤمنانہ ہے۔ کیونکہ خود اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انسان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ وہ معافی مانگ لے تو میں بھی اسے معاف کر دیتا اور اس کے گناہ کو نظر انداز کر دیتا ہوں۔ لیکن گواہ خدا سے بھی سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ شاطر سیاست کو اس بیان پر لکھنا چاہئے تھا کہ اس نے غیرمؤمنانہ حرکت کر کے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ لیکن شاطر سیاست کا جواب ملاحظہ ہو۔ ’’مؤمنانہ فراست اسی کو کہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ الفضل کے باربار اعلان کے باوجود یہی لوگ اس کے دھوکے میں آگئے۔ اگر اسی طرح مؤمنانہ فراست سب لوگ استعمال کرتے تو یہ لوگ کسی کو دھوکا نہ دے سکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۵۶ئ)
گویا کسی کے گناہ کو یا غلطی کو معاف نہ کرنا شاطر سیاست کے نزدیک مؤمنانہ فراست ہے اور غالباً اسی مؤمنانہ فراست کا نام اخلاق ہے۔ جس کی نشرواشاعت کے لئے آمریت مآب روز وشب مصروف ہیں۔
آزادیٔ ضمیر
اسلام میں آزادیٔ ضمیر کا ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے جتنی اہمیت دی جائے کم ہے۔ اسلام نے اظہار رائے کی آزادی ہی پر اپنے تمام اعتقادات کی بنیاد رکھی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید