پیش لفظ
احمدیت سے محمودیت تک
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صد ہزار نمک دان کئے ہوئے
تحریک احمدیت انیسویں صدی کے آخر میں احیائے ملت کے ادّعا سے شروع ہوئی۔ اب استحیائے ملت پر ختم ہوکر دم واپسیں کے سہارے زندہ ہے۔ عمل استحیاء ۱۹۱۴ء میں شروع ہوچکا تھا۔ اس وقت جماعت کے عوام کالانعام ’’فقیہان مصلحت بین‘‘ اور ابن الوقت اخلاف نے ایک جلیل القدر عالم اور بزرگ شخصیت کی جانشینی کے لئے ایک الہڑ، کندہ ناتراش اور گوناگوں آلائشوں سے ملوث پچیس سالہ جوان کو اپنا مذہبی امام اور مقتداء تسلیم کر لیا۔ اس کے پادر ہوا دعاوی کے دفتر بے معنی کو غرق مے ناب کرنے کے بجائے اپنی دانش وبینش کو ان میں غرق کردیا۔ پیر پرستی کے مشرکانہ جذبے سے مغلوب ہوکر ایک تازہ وارد بساط ہوائے دل کو اکاسی سالہ نور الدین کا خلیفہ چن کر اپنے دین کو بے نور اور… اپنی تحریک کو تاریک کر دیا۔ ان لوگوں نے اپنے اس انتخاب سے ثابت کر دیا کہ ان کے دلوں میں دین کے لئے تپش سے کہیں زیادہ پیرزادے کے لئے تپسیا کا جذبہ موجزن ہے۔ ارباب بصیرت اسی وقت سمجھ گئے۔ کہ جماعت کی یہ نامحمود حرکت اس کے لئے مہلک ثابت ہوگی۔ اس انتخاب کے پیچھے مرزامحمود احمد کی اپنی زیر زمین مساعی بھی تھیں۔ وہ اپنی سعی مشکور سے مخمور ہوکر ایسے دعاوی کا اعلان کرنے لگ گیا تھا جو تمام تحریک پر طنز بن کر رہ گئے۔ اس نے اجتماعی شکست خوردگی سے فائدہ اٹھایا اور فضیلت اور افضلیت کے دعوے تراشنے شروع کر دئیے۔ ایک سانس میں حضرت فاروق اعظمؓ سے جن کو مولانا شبلیؒ نے نقیب چشم رسول کہہ کر پکارا تھا، اپنا درجہ بلند قرار دیا اور اپنے آپ کو ’’فضل عمر‘‘ منوانا شروع کر دیا۔ چونکہ جماعت اپنے انتخاب سے روحانی خود کشی کر چکی تھی۔ اس نے بلاحیل وحجت اپنے ساختہ پرداختہ خلیفے کو خلفاء راشدین سے افضل تسلیم کر لیا۔ اس نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ خادم کا خلیفہ آقا کے خلیفہ سے کیسے افضل ہوسکتا ہے؟ چونکہ دینی شعور کی جگہ تعصب نے لے لی تھی۔ اس واسطے سوچ بچار کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اس جماعت نے اس خلیفہ کو ہزہولی نس His Holiness بھی تسلیم کیا۔ گویا اپنی مزعومہ اسلام دوستی کو عیسائی شرک کے نذر کر دیا۔ کیونکہ اس کا کعبہ مقصود ’’خلیفہ‘‘ کی ذات تھی۔