حسین بخوف جان مضافات کوفہ میں روپوش ہوگیا۔ اس کے دونوں معاون دست راست مدثر اور مطوق بھی اس کے ہمراہ تھے۔ آخر حسین بہ تبدیل ہیت رحبہ پہنچا۔ جاسوسوں نے جو سایہ کی طرح ساتھ لگے تھے والئی رحبہ کو اس کی آمد کی اطلاع کر دی۔ حاکم رحبہ نے تینوں کو گرفتار کرکے خلیفۃالمسلمین کے پاس بوقہ بھیج دیا۔ خلیفہ نے حسین کو پہلے دو سودرے لگوائے۔ اس کے بعد صلیب پر چڑھا دیا۔ اس کے دونوں ساتھی عفریت شمشیر کے حوالے کئے گئے۔ خلیفہ نے اس مہم سے فارغ ہوکر اپنے لشکر ظفر پیکر کے ساتھ بغداد کو مراجعت کی۔ (تاریخ کامل ابن اثیر ج۷)
۱۵… علی بن فضل یمنی
۲۹۳ھ میں اسمعٰیلی فرقہ کا ایک پیرو علی بن فضل نامی ضلع صنعاء کے کسی گاؤں سے صنعاء دارالحکومت یمن میں اس دعوے کے ساتھ آیا کہ وہ نبی اﷲ ہے۔ ان ایام میں خلیفہ مکتفی باﷲ عباسی کی طرف سے اسعد بن ابوجعفر یمن کا عامل تھا۔ علی بن فضل بہت دنوں تک اہل صنعا کو اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت دیتا رہا۔ لیکن کوئی شخص تصدیق پر آمادہ نہ ہوا۔ جب تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں تو اس نے کسی عقلی تدبیر سے لوگوں کو رام کرنا چاہا۔ چنانچہ ایک دوا جس کو بصرہ میں داخن اور مصر میں لسما الدرفیل کہتے ہیں۔ حاصل کر کے اس کا گودا لیا۔ اسی طرح چھ اور اجزاء (۱)چھپکلی کی چربی (شحم جزدون (جس کے خالص) ہونے کی یہ پہچان ہے کہ اسے آگ پر ڈالا جائے تو آگ فوراً بجھ جاتی ہے۔ (۳)کانچ کا چونہ۔ (۴)شنگرف۔ (۵)پارہ۔ (۶)زنگار فراہم کئے۔
اسی طرح ان تمام اجزاء کا نصف وزن (ساڑھے تین جزئ) گائے کا گوبر اور ان اجزاء کا ربع (یعنی پونے دو جزئ) گھوڑے کی پیشانی کے بال لے کر کوفتنی دواؤں کو باریک کیا اور چربیوں کوملا کر معجون طیار کی۔ پھر گولیاں بنا کر ان کو سایہ میں خشک کیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ رات کے وقت ایک بلند مکان پر چڑھ کر یہ گولیاں دہکتے ہوئے کوئلوں پر ڈال دیں۔ ان سے سرخ رنگ کا دھواں اٹھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام فضائے بسیط پر محیط ہوگیا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ کرہ ہوا کرہ نار بن گیا ہے۔ پھر اس نے کوئی ایسا افسوں کیا کہ دھوئیں کے اندر بے شمار ناری مخلوق دکھائی دینے لگی۔ یہ ناری آدمی آگ کے گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے اور وہ آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے۔
یہ وحشت ناک منظردیکھ کر لوگ گھبرا اٹھے اور ان پر یہ واہمہ سوار ہوا کہ چونکہ ایک نبی اﷲ