شیخ عبدالرحمن مصری
مباہلہ والوں کے الزامات اور دعوت مباہلہ کے نقوش ابھی تازہ ہی تھے کہ ۱۹۳۷ء میں کچھ اور لوگ منظر عام پر آئے اور انہوں نے بھی شاطر سیاست پر یہی اعتراض کیا کہ آپ کی زندگی آلودہ ہے۔ شیخ عبدالرحمن مصری جماعت احمدیہ قادیان کے بہت بڑے عالم تھے اور ایک بزرگ کی حیثیت سے بھی جماعت میں ان کا بہت اثر ورسوخ تھا۔ صوم وصلوٰۃ کے پابند، تہجد گزار اور متقی ہیں اور ہر لمحہ خدمت دین میں مصروف رہتے ہیں۔ ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور ان پر شاطر سیاست کی خاص الخاص عنایات ہوتی رہتی تھیں۔ شیخ صاحب شاطر سیاست کو نجات کا باعث سمجھتے ہر ایک کام میں مشورہ لینا دعا کے لئے درخواستیں کرتے رہنا اور شاطر سیاست سے اندھی عقیدت رکھنا جزو ایمان تصور کرتے تھے۔ لیکن ان کے دل ودماغ پر اچانک ایک زلزلہ آیا اور عقیدت کے پہاڑ گر پڑے۔ اپنی ناموس سے زیادہ عزیز شے شاید دنیا میں کوئی نہ ہو اور یہی ایک غیرت ہی تو ہے جو انسان کو عروج پر لے جاتی ہے۔ دنیا میں آئے دن اپنی عزت وناموس پر سینکڑوں لوگ جانیں دے دیتے ہیں۔ شیخ عبدالرحمن مصری بھی انہی غیور انسانوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ناموس کے لئے جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ چنانچہ جب انہیں علم ہوا کہ امیرالمؤمنین کہلانے والا خداکا محبوب ہونے کا دعویٰ کرنے والا اور اپنے آپ کو عورتوں اور مردوں کا روحانی باپ کہنے والا تقدس کے پردے میں بھولی بھالی لڑکیوں کا شکار کھیلتا ہے تو انہیں مباہلہ والوں کے الزامات یاد آگئے۔ جب مباہلہ والوں نے شاطر سیاست پر یہی الزام عائد کئے تھے تو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اسے مباہلہ والوں کے ذاتی عناد کی وجہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ شیخ صاحب نے اس وقت اندھی عقیدت کے جوش میں مباہلہ والوں کے الزامات کی تردید اور شاطر سیاست کے حق میں مضامین بھی لکھے اور معترضین کے الزامات کو ان کی ذاتی رنجش قرار دیا۔ شیخ صاحب کو علم نہ تھا کہ معترضین حق پر ہیں اور ایک وقت آنے والا ہے۔ جب خدا شیخ صاحب پر بھی ان کی سچائی ظاہر کرے گا اور شیخ صاحب کو خود بھی اپنے روحانی باپ پر وہی الزامات عائد کرنا پڑیں گے۔ سو شیخ صاحب نے مباہلہ والوں کے الزمات پر متعدد مضامین شائع کئے اور انہیں جھوٹ اور کذب بیانی سے تعبیر کیا۔ لیکن چند ہی سال بعد جب انہوں نے اپنی عزت پر ڈاکہ پڑتے دیکھا تو ان کا سر چکرا گیا۔ ان کی دنیا بدل گئی۔ ان پر سکتہ کا سا عالم طاری ہوگیا اور ایمان پر ایسا زلزلہ آیا کہ مباہلہ والوں کے الزامات پر یقین ہوگیا۔ اب شیخ صاحب کو احساس ہوا کہ تقدس کا یہ بہت بڑا علمبردار کیا گل کھلاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا شاطر سیاست کو چند خطوط لکھے اور دریافت کیا کہ زنا جائز ہے؟