آمریت کا مفہوم
آمیریت (ڈکٹیٹر شپ) اس نظام حکومت کا نام ہے جس کی زمام فرد واحد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور حکومت کرنے والے کوآمر (ڈکٹیٹر) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آمر زمام حکومت وراثت میں حاصل نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا تخت اقتدار پر فائز ہونا سازشوں، سیاسی جوڑ توڑ اور قوت بازو کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ ملک کے سیاہ سفید کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔ اسے تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ملک کا آئین اس کے اقوال کا تابع ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے افکار ہی قانون سمجھے جاتے ہیں۔ وہ تمام معاملات میں خود مختار ہوتا ہے اور کسی شخص کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔ اس کے فرمان کی اطاعت قرآن پاک کی آیات کی طرح فرض متصور ہوتی ہے اور وہ بزور شمشیر اپنے احکام منواتا اور حکومت کرتا ہے۔ اس کے عہد حکومت میں تنقید وتبصرہ کی اجازت نہیں ہوتی۔ ملک کے کونے کونے میں جاسوسوں کا جال پھیلا دیا جاتا ہے۔ پریس اس کے احاطہ قدرت میں رہتا ہے۔ جسے صرف اسی کے پروپیگنڈہ کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف کسی دوسری جماعت کا قیام ناممکن ہوتا ہے اور اس کی پالیس سے ایک ذرہ بھر بھی اختلاف کرنے والوں کو جورو استبداد کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ ناقدین کو تختہ دار کے ذریعہ یا دوسرے ہتھکنڈوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ شہری آزادی مفقود ہوتی ہے اور ایک فرد کی حیثیت تنکے کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ آمریت کا وجود زمانہ قدیم میں بھی رہا ہے۔ روم، یونان، فرانس، جرمنی، روس، جاپان، اطالیہ اور مصر میں آمری حکمرانوں کا ایک وسیع سلسلہ جاری رہا ہے۔ قدیم اور جدید آمروں کے انداز حکومت اور اقوال وافکار میں یک رنگی کے باوجود ان میں امتیاز بھی موجود ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف آمر منظر عام پر آئے اور اپنے اپنے ماحول اور فضا کے رنگ میں رنگین ہوکر حکومت کرتے رہے۔ روم کا آمرانہ نظام وقت کی ضرورت کے پیش نظر معرض وجود میں آتا رہا اور جب بھی ملک میں بحرانی کیفیات اجاگر ہو جائیں ایک آمر مطلق عنانی کے فرائض سرانجام دینے لگتا اور ایک محدود مدت معینہ کے بعد خود بخود مستعفی ہوجاتا۔ اس کے عہد حکومت میں ایک مجلس بھی ہوتی۔ جسے ایوان اعلیٰ کے نام سے موسوم کیا جاتا۔ لیکن اس کے اختیارات محدود اور اس کا حلقۂ قدرت مفقود ہوتا تھا۔ ایوان اعلیٰ کا مقصد آمر مطلق کے عہد حکومت کی تمام روئیداد لینا اور اس کے استعفیٰ پر غور کرناتھا۔ یہ روئیداد وہ اس وقت پیش کیا کرتا جب اپنے دور اقتدار کی میعاد ختم کر چکا اور اپنا استعفیٰ ایوان اعلیٰ کے سامنے پیش کر دیتا تھا۔