نے ہی حضرت عمرؓ کو ہوشیار کیا اور ڈانٹ کر توجہ دلائی کہ اے عمرؓ! تم نہیں دیکھتے کہ حضور کا مبارک چہرہ غصے کے مارے متغیر ہوگیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بہت جلد معلوم کرلیا کہ سبب ناراضگی میرا توراۃ کا پڑھنا ہے فوراً بول اٹھے کہ حضرت جی! میں اسی خدائے واحد پر ہی ہوں جو مجھے قرآن بھیجنے والا ہے اور اسی محمد پر ایمان رکھتا ہوں جو سچا ٹھیک اور سیدھا دین (جس کا نام اسلام ہے لے کر آیا ہے) اب اس تورات کو کیونکر راہ نجات خیال کرو؟ اس کو میں ہرگز نہ پڑھوں گا، پھر پیارے نبیﷺ نے فرمایا ’’لوکان موسیٰ حیّا ما وسعہ الا اتباعی‘‘ (ترمذی، مشکوٰۃ) کہ (اے عمر!) اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری ہی اتباع کرنی پڑتی۔ جب خود نبی حضور کی نبوت کے دور میں امتی بن سکتا ہے تو کسی ذلیل فریبی غدار۔ دھوکہ باز (جو امتی کہلائے) کو کیا حق ہے کہ ہمارے محمدﷺ کی موجودگی میں نبوت کا دعوت کرے اور فریب کا جال بچھائے۔ امت مرحومہ کے فرزندوا کچھ تو سود اور حق کی داد دو۔
جھوٹے انبیاء کی اعدادوشمار … چھتیسویں حدیث
’’عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون۔ کلہم یزعم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی‘‘
(ابودائود، ترمذی، مشکوٰۃ، کتاب الفتن الفصل الثانی ص۴۶۴،۴۶۵ قدیمی کتب خانہ وغیرہ)
حضرت ثوبانؓ سے روایت کہا کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ تحقیق میرے بعد میری ہی امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ہر ایک ان میں سے گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم الانبیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
تشریح
اس حدیث میں حضور کی پیشینگوئی جو حضور نے اﷲ تعالیٰ سے خبر لے کر بیان فرمائی ہے۔ سورج کی طرح ظاہر ہورہی ہے کہ میرے انتقال کے بعد، میرے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی نبوت اور رسالت تو صرف اور صرف میری ہی رہے گی۔ مگر کم از کم تیس آدمی تو ایسے نمک حرام بھی پیدا ہوں گے جو میرے امتی اور روحانی بیٹے کہلانے کا دعویٰ کریں گے۔ میری نبوت کی گدی پر بیٹھنے کی کوشش کریں گے۔ میری ہی عزت پر ڈاکہ ڈالنے کی بے کار سعی کریں گے۔ میری ہی جیب کترنے کو قینچیاں تیار کریں گے۔ اس لئے اے میرے سچے امتیو! میں اعلان کرتا ہوں کہ ان کا یقین نہ کرنا۔ بلکہ سمجھ لینا کہ وہ جھوٹے اور بدکردار ہیں۔ نمک حرام اور جعل ساز ہیں۔ ان سے خود بچو اور حسب طاقت میری امت کو بچائو۔