ہوتا۔ صیغہ امانت میں گورنمنٹ کے افسروں کے کھاتے کھلے ہیں ہم محکمہ انکم ٹیکس والوں کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس ژولیدگی کی چھان بین کرے۔ انہیں بڑی مفید معلومات حاصل ہوں گی اور وہ تمام لوگ جو گورنمنٹ ٹیکسوں سے بچنے کے لئے بینکوں کی بجائے یہاں روپیہ رکھتے ہیں۔ منظر عام پر آجائیں گے اور گورنمنٹ ملازم جن کے لئے اپنی مالی پوزیشن کو صاف رکھنا ضروری ہے ان کے متعلق تمام کوائف طشت ازبام ہو جائیں گے۔ بینکاری کا معاملہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔ اگر کوئی بینک بیٹھ جائے تو کتنے لوگ برباد ہو جاتے ہیں۔ پیپلز بینک جب دیوالیہ ہوا تھا تو کس طرح ملک میں کہرام مچ گیا تھا۔ بینک تو بند ہوگیا مگر ان بیواؤں اور یتیموں کا رونا کسی طرح بند نہ ہوا۔ جن کا روپیہ اس میں امانت پڑا ہوا تھا۔ گورنمنٹ نے اس کا کیا انسداد کیا ہے؟ اگر خلیفہ کی بے تدبیری اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی اور آئے دن کی اوور ڈرافٹس Drafts اور صیغہ امانت سے قرض کے نام پر نکلوائی ہوئی بھاری رقوم سے یہ بینک دیوالیہ ہوگا جس کا دیوالیہ ہو جانا ایک یقینی امر ہے تو امانت والوں کاکیا بنے گا۔ پاکستان کے شہریوں کے اموال کی حفاظت کا کیا بندوبست کیا ہے۔ حکومت کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ ربوہ کا یہ بینک خلیفہ کی بے اعتدالیوں کے باعث شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اس کے کل سرمایہ میں سے جو تقریباً ۲۳لاکھ روپیہ ہے۔ ۱۸لاکھ روپے کی گراں قدر رقم عملاً خوردبرد کی جاچکی ہے۔ اگر اس بینک کا کوئی باقاعدہ میزانیہ تیار کروایا جائے تو حکومت کو خود علم ہو جائے گا کہ یہ عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے اور اس کے واجبات زیادہ اور اثاثہ اس کے بالمقابل برائے نام ہے۔
مخفی اخراجات
حکومت کو بعض اوقات مخفی طور پر بعض اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ خلیفہ کے ریاستی بجٹ میں بھی یہ مد موجود ہے۔ خلیفہ خود فرماتے ہیں: ’’صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخرجات مخفی ہوتے ہیں مگر میں ان کے متعلق بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبر رسانیوں اور ایسے ہی اور اخراجات پر جوہر شخص کو بتائے نہیں جاسکتے، خرچ ہوئے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲؍جولائی ۱۹۳۷ئ)
آزادی رائے پر پہرے
آمرانہ حکومتوں میں آزادی رائے عنقا ہوتی ہے۔ ایسا ہونا آمریت کے مزاج کے مطابق ہے۔ بلکہ وہاں انکار پر سنگین پہرے ہوتے ہیں۔ ہٹلر کے دور اقتدار میں کوئی جرمن باشندہ