استعمال کیاگیا ہے اور جماعت کو بتایا جاتا ہے کہ تحریک جدید خسارہ اٹھارہی ہے۔ بیت المال کا روپیہ کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں میں لگایا اور بیرونی ممالک میں بھیج دیا گیا تاکہ جب کبھی بھی پاکستان سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں جانا پڑے تو وہ روپیہ کام آسکے۔ ان تمام حالات کی روشنی میں اس بات کا اقرار کرنا ہی پڑے گا کہ میاں صاحب نے بیت المال کے روپیہ کا بے جا مصرف کیا اور اس طرح انہوں نے حضرت سلمانؓ کی تشریح کے مطابق اپنے آپ کو بادشاہ ثابت کر دیا۔ پس حضرت عمر فاروقؓ اس لئے خلیفہ تھے کہ وہ بیت المال کے روپیہ کو ذاتی تصرف میں نہیں لاتے تھے اور میاں محمود احمد اس لئے بادشاہ ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہتے ہیں دے دیتے ہیں اور اس طرح اسراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں خلافت کا درجہ دینا یاان کی بادشاہت کانام خلافت رکھنا قابل صد نفرین ہے۔ بلکہ وہ لوگ جو انہیں خلیفہ کا لقب دے رہے ہیں وہ اسلام سے صریحاً دشمنی کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں اور بادشاہت کو خلافت کا نام دے کر غلیظ اور گندی شے کو پاکیزہ اور ارفع چیز سے تعبیر کر رہے ہیں اور یہ حرکت سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور خلفائے راشدینؒ کی عزت وناموس پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے ؎
بادشاہت کو خلافت کہا
دین احمد سے عداوت ہی تو ہے
روز روشن کی طرح ان واضح دلائل وحقائق کی موجودگی میں جو شخص بھی میاں محمود احمد کو خلیفہ کا درجہ دیتا ہے وہ دشمن اسلام ہے اور میرے نزدیک ایسا شخص اپنے لئے دوزخ کے دروازے کھول رہا ہے۔ لہٰذا انہیں خلافت کا منصب بخشنا معصیت کی ایسی ہیبت ناک صورت ہے کہ جس کا مرتکب قہر خداوندی کو خود دعوت دیتا ہے۔ بادشاہت اور خلافت کاتجزیہ کرنے کے بعد آئیے اب دور محمودیت کے واقعات وحالات کا بھی جائزہ لیں اور اس جماعت کو اوّل سے آخر تک پرکھیں تاکہ شاطر سیاست کی آمریت ثابت کرنے میں آسانی ہو۔
محمودیت سے پہلا اختلاف
حکیم مولوی نورالدین کی وفات سے قبل ہی ان کی زندگی میں میاں محمود احمد نے خلافت کے حصول کی خاطر جدوجہد شروع کر دی تھی۔ چنانچہ جب وہ فوت ہوئے تو انہوں نے مولوی محمد علی (جن کا جماعت میں اثر ورسوخ تھا) کی سادگی اور شرافت سے فائدہ اٹھا کر ووٹوں کے گٹھ جوڑ سے مسند خلافت پر قبضہ کر لیا۔ مولوی محمد علی (لاہوری مرزائی) اور ان کے رفقائے کار نے جو میاں صاحب کے اخلاق وعادات سے بخوبی واقف تھے ان کے مسند خلافت پر متمکن