دیباچہ
وہ شاخ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی
نہ پھل سکی تو نئی فصل گل کے آنے تک
خمیر ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی
قادیانی تحریک کی عمر اس وقت تقریباً ستر برس ہوچکی ہے۔ اس کا پہلا دور جس میں اس کی داغ بیل پڑی۔ پچیس سال بعد ۱۹۱۴ء کو ختم ہوا۔ دوسرا دور محمودی استبداد کا ہے۔ اس پر پینتالیس سال بیت چکے ہیں۔ قادیانیوں کے اپنے عقیدہ کے مطابق پہلے دور کو دوسرے دور سے وہی تعلق ہے جو شجر کو ثمر سے ہوتا ہے۔ گویا انہوں نے اپنی تحریک کے پرکھنے کی کسوٹی خود ہی تجویز کر دی ہے۔ وہ کسوٹی ’’خلیفہ‘‘ کی وہ لن ترانیاں ہیں جو الفضل کی پیشانی پر ہر روز جلوہ گر ہوتی ہیں۔ وہ لن ترانیاں قیادت کے مزاج اور جماعت کی ذہنیت کی غماز ہیں۔ ابتداء میں ہی مرزامحمود احمد پر لیڈری کا بھوت سوار تھا۔ انہوں نے جماعت کے پیر پرستانہ جذبے سے فائدہ اٹھا کر اذہان کا عمل حکیم نورالدین کے دور خلافت میں ہی شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے چالیس آدمیوں کے دستخطوں سے صدر انجمن کے خلاف ایک بیان جاری کیا تھا اور اپنے لئے زمین ہموار کرنی شروع کر دی۔ اب اپنے دور میں معمولی اختلاف کو بھی گوارا نہیں کرتے۔ اپنے پیشرو کی وفات تک انہوں نے اپنی عمیق سازش کی سرنگیں دور دور تک جماعت میں بچھادی تھیں۔ ان کے حریف اگرچہ بے خبر نہ تھے۔ لیکن بے ہنر ضرور ثابت ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے نہ کوئی تدارک کیا اور نہ ہی تاب مقاومت کا مظاہرہ کیا۔ جونہی حکیم نورالدین کی وفات ہوئی۔ محمودی سازشوں کا ابوالہول نمودار ہوا اور اس وقت کے ارباب اختیار جو مرزاغلام احمد کے نورتن تھے، بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کا فرار مرزامحمود احمد کے لئے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا۔ خلافت کا تاج پہن کر اس نے برطانوی حکومت کے ساتھ سیاسی تعلقات استوار کئے اور اس کی پشت پناہی حاصل کی۔
چونکہ مرزامحمود احمد پچیس سال کی عمر میں ہی خلافت پر قابض ہو گئے تھے۔ اس لئے ڈکٹیڑوں کی طرح نفرت کی فصلیں استوار کر کے ہی زندہ رہ سکتے اور جماعت کو اپنے ساتھ وابستہ رکھ سکتے تھے اور اس میں کلام نہیں کہ یہ کارنامہ انہوں نے اسی طرح سرانجام دیا جس کی ان کو آرزو تھی۔ انہوں نے مسئلہ تکفیر کو خوب اچھالا اور مسلمانوں سے عمرانی مقاطعہ کر کے جماعت کو تدریجاً اپنے سامنے صید زبوں بنا کر چھوڑ دیا۔ اس کے لئے قادیان (اور اب ربوہ) کی فضا بڑی سازگار ثابت ہوئی۔ قادیان سے باہر مرید اپنے پیر کی تعلیمات کی پیروی میں مسلمانوں کے سواداعظم