جرم کی پاداش میں اﷲ یار بلوچ پر قاتلانہ حملہ کیاگیا۔ جس کا مقدمہ چل رہا ہے۔
خلیفہ کا دستور ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف اپنے مریدوں کو ابھارتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں ان کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہی عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جاؤ گے یا گالیاں دینے والوں کو مٹادو۔ اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم! تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں نہیں توڑتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍جون ۱۹۳۷ئ)
ان مذکورہ بالا امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد ہم گورنمنٹ کی توجہ ان بنیادی اجزاء اور عناصر کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو ریاستوں اور حکومتوں میں پائے جاتے ہیں اور جو ربوہ ریاست میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ چنانچہ وہ یہ ہیں۔ سربراہ، مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، فوج، دارالحکومت اور بینک وغیرہ وغیرہ۔ اپنے انتظام کے بارہ میں خلیفہ کا اپنا دعویٰ یہ ہے: ’’ان کی جماعت کا نظام ایک مضبوط سے مضبوط گورنمنٹ کے نظام کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ‘‘
(الفضل مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۴۷ئ)
اب ہم بالتفصیل ان مذکورہ بالا امور کے بارہ میں اگلے باب میں علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالیں گے۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ قادیان میں چھوڑی ہوئی جائیداد کے بارہ میں ہے۔ مہاجرین جو قادیان میں جائیداد چھوڑ آئے۔ ان کو خلیفہ ربوہ نے کلیم داخل کرنے سے منع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کے کلیم احمدیوں نے داخل نہیں کئے اور گورنمنٹ پاکستان کو اس وجہ سے لاکھوں روپے کے کم کلیم آئے۔ کیا یہ گورنمنٹ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی نہیں۔
خلافتی حکومت کا تفصیلی خاکہ
اب ہم ذیل میں ربوی مملکت کے اجزائے ترکیبی کے ہر جزو پر خلیفہ کی زبان سے روشنی ڈالیں گے۔
سربراہ
’’ریاست میں حکومت اس نیابتی فرد کا نام ہے جس کو لوگ اپنے مشترکہ حقوق کی نگرانی سپرد کرتے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۶ئ)
خلیفہ ربوہ کی اصطلاح میں اسے خلیفہ کہتے ہیں اور ایسا خلیفہ اگرچہ غلطی سے منزہ نہیں