۱۲… اپنے رویا وکشوف کو جو مقام وہ دے رہے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ رؤیا وکشوف کو وحی نبوت کا درجہ دینا اور اپنے ہر کشف سے اپنی صداقت ثابت کرنا قطعاً ناجائز اور خود مرزاغلام احمد کی ان تعلیمات کے منافی ہے جو رؤیا وکشوف اور وحی کا الہام سے متعلق انہوں نے حقیقت الوحی میں درج کی ہیں۔
۱۳… ان الزامات واعتراضات کا جواب دینا خلافت مآب کے لئے اشد ضروری بلکہ فرض ہے۔لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ جو شخص بھی ان کی ذات پر اعتراضات کرتا ہے وہ اسے منافق کہنے لگتے ہیں اور جواب دینے کی بجائے اسے جماعت سے خارج کر دیتے ہیں۔
یہ وہ اعتراضات ہیں جو شاطر سیاست پر ہر لمحہ ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کی طرف سے عتاب کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ چنانچہ مولودہ فتنہ منافقین میں بھی ان کامسلک یہی ہے اور انہوں نے جب اس سازش کا آغاز کیا تو اپنے خوشامدیوں سے اپنے مطلب کی شہادتیں لکھوانی شروع کر دیں اور خوشامدیوں نے بھی شہادت دینے میں کمال کر دیا اور اس قدر دروغ گوئی سے کام لیا کہ دروغ گوئی کے گذشتہ ریکارڈ بھی مات کر دئیے اور اپنے پیر کو بھی آئینہ دکھا دیا۔ آئیے اب ذرا ؎
قیس کو دیکھ کے لیلیٰ کا تصور کر لیں
گواہ اور ان کی شہادتیں
خلافت مآب نے جب بھی کبھی کوئی فتنہ بپا کیا خود ہی کیا اور اسے منسوب، دوسروں کے نام کر دیا اور اس کے لئے جو گواہ پیش کئے ان میں اکثریت خوشامدی مریدوں پر مشتمل ہے اور یا وہ ہیں جن پر دباؤ ڈال کر بیانات لئے گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جنہوں نے محض شاطر سیاست کو خوش کرنے کی غرض سے بیان گھڑے اور لفافے میں ڈال کر ارسال کر دئیے۔ ذیل میں چند ایک گواہوں اور ان کی شہادتوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے جن سے ظاہر ہے کہ یہ سازش شاطر سیاست کی خود ساختہ ہے اور گواہوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو یا تو شاطر سیاست کے خلاف اپنی نجی مجلسوں میں خود بھی باتیں کرتے رہتے ہیں اور یا وہ لوگ ہیں جو اخلاقی اعتبار سے کوئی بلند مقام نہیں رکھتے یا ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں محض خوشامد مقصود تھی یا وہ بیان دینے کے لئے مجبور تھے۔
الفضل مورخہ ۱۸؍اگست ۱۹۵۶ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک شخص کا بیان شائع ہوا ہے۔ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی معروف شخصیت نہیں ہے اور اس نے جو بیان دیا ہے اس میں سے دروغ گوئی کی بو آتی ہے۔ لکھا ہے: ’’مجھے اﷲ رکھا کو دیکھتے ہی نفرت ہوگئی اور اس کے