جس کی آغوش میں ہر شب ہے نئی ماہ لقا
اس کے سینے میں خدا ہے ہمیں معلوم نہ تھا
’’موجودہ خلیفہ سخت بدچلن ہے۔ یہ تقدس کے پردہ میں عورتوں کا شکار کھیلتا ہے۔ اس کام کے لئے اس نے بعض مردوں اور بعض عورتوں کو بطور ایجنٹ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ذریعہ یہ معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کو قابو کرتا ہے۔ اس نے ایک سوسائٹی بنائی ہوئی ہے۔ جس میں مرد اور عورتیں شامل ہیں اور اس سوسائٹی میں زنا ہوتا ہے۔‘‘ (الفضل ) بیان عدالت مولوی عبدالرحمن صاحب مصری ہیڈ ماسٹر احمدیہ وسابق امیر جماعت احمدیہ مقامی قادیان۔
فخرالدین ملتانی کا قتل
ابھی مصری صاحب کا سلسلہ جاری ہی تھا اور الفضل ان پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف تھا کہ فخرالدین ملتانی نے جو شاطر سیاست کے بڑے مخلص مرید تھے اور جنہوں نے ذاتی مشاہدات کی بناء پر جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ ایک پمفلٹ بعنوان ’’فحش مرکز‘‘ لکھا۔ جس میں خلافت مآب موصوف کی پرائیویٹ زندگی پر تنقید کی اور اسے فحش قرار دیا۔ جس پر قادیانی گزٹ نے چند مضامین لکھے اور بڑے دردمندانہ انداز میں اپنی مظلومیت کا رونا رویا اور ساتھ ہی اپنے مریدوں کو پرامن رہنے اور اشتعال میں نہ آنے کی تلقین کی اور اس قسم کی تلقین باربار کی جس کا مقصد اس اقدام کا حفظ ماتقدم تھا جس کا انہوں نے پروگرام مرتب کر لیا تھا۔ چنانچہ چند ہی روز بعد فخرالدین ملتانی پر قاتلانہ حملہ کیاگیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ ہسپتال میں فوت ہو گئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ خلافت مآب نے چند غنڈوں کو روپیہ دے کر انہیں قتل کروایا تھا۔ چنانچہ جس غنڈے نے انہیں قتل کیا تھا جب عدالت نے اسے سزائے موت دی اور وہ تختہ دار پر لٹکایا گیا تو خود میاں محمود احمد نے اس کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلوایا اور اسے بڑی شان وشوکت سے دفن کیاگیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس دن فخرالدین ملتانی فوت ہوئے اس سے چند ہی روز بعد الفضل میں ایک مضمون شائع کیاگیا جس میں مقتول کے گناہ گنے گئے اور سے مجرم گردانا گیا۔ جس کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ فخرالدین ملتانی کے قتل میں شاطر سیاست کا ہاتھ تھا۔ ان دنوں ہندوستان پر سفید فام اجنبی حکمران تھا اور میاں صاحب اس کے پرانے خدمت گار تھے۔ لہٰذا اخبارات نے شور مچایا لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ فخرالدین ملتانی وفات پاگئے اور دنیا میاں محمود احمد کے ان الفاظ کا مفہوم سمجھنے میں مصروف رہی کہ احباب پرامن رہیں اور اشتعال میں نہ آئیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کا مفہوم سمجھ بھی لیا۔ لیکن انگریز حکمرانوں نے انہیں سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہ سمجھنے دیا اور شاطر سیاست کا کارواں چلتا رہا۔ قصر خلافت کے خلوت