آمرانہ کیفیات اور آمرانہ ٹھاٹھ باٹھ ہو۔ چنانچہ شاطر سیاست نے ان قیود کو توڑا۔ اپنی بدعنوانیوں اور دھاندلیوں سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ آمر ہیں اور مذہبیت کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کی نگاہوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ شاطر سیاست آمر مطلق ہیں اور ان کو ربوہ کا مذہبی آمر کہنا کسی صورت میں بھی بے جا نہیں ہے۔
فرزانگی سے دیوانگی تک
دنیا میں جس قدر جھوٹے مدعی نبوت ہوئے ہیں ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ مقنّٰی نے سب سے پہلے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور جب چند لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے تو خدائی کا دعویٰ کر دیا۔ اسی طرح شدّاد، فرعون، نمرود وغیرہ نے خدائی اور پیغمبری کے دعوے کئے۔
ان میں سے ہر ایک نے تقدس کی آڑ میں جورو استبداد اور سیاہ کاریوں کو جنم دیا۔ بے بس اور غریب لوگوں کی بہو بیٹیوں کی عزت وناموس پر ڈاکے ڈالے اور غیرت خداوندی کو بھڑکا دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مقنّٰی کا انجام نہایت عبرتناک ہوا تھا اور وہ ابلتے ہوئے تیل میں چھلانگ لگا کر موت کی آغوش میں ہمکنار ہوگیا تھا۔ گو اس کا یہ انجام بھی عبرتناک تھا۔ لیکن اس نے موت کو بزدلوں کی طرح پھر بھی قبول نہیںکیا۔ لیکن ان کے دعاوی نبوت اور خدائی کے دعوے سے کم نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ بھی مقنّٰی اور شدّاد کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ غیرت خداوندی جوش میں آتی۔ سو آج ہم سن رہے ہیں کہ آمریت مآب کی ذہنی صلاحیتیں مخدوش ہیں اور اہل ربوہ ان کی اس حالت کو چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ہنوز ان کی کیفیت دیوانگی کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔ یہ خبر غیرمصدقہ نہیں بلکہ اس کی تصدیق کے لئے خلافت مآب کا ۲۴؍جنوری ۱۹۵۷ء کا خطبہ بیّن ثبوت ہے۔ اس خطبہ میں خلافت مآب نے کیا فرمایا ہے۔ میں تو کچھ بھی نہیں سمجھ سکا اور میرا دعویٰ ہے کہ اس خطبہ کا مفہوم ہر ذی فہم شخص کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس خطبہ کے علاوہ الفضل ۲۷؍جنوری ۱۹۵۷ء کا اداریہ قابل غور ہے۔ یہ اداریہ نہیں بلکہ ادارئیے کی جگہ شاطر سیاست کے بھائی مرزابشیراحمد ایم۔اے کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں مرزاغلام احمد کی چند پیش گوئیاں درج کی گئی ہیں۔ ان میں سے جو پیش گوئی خاص طور پر قابل غور ہے وہ ملاحظہ فرمائیے۔ لکھا ہے: ’’پانچویں نمبر پر حضرت مسیح موعود کا ایک رؤیا ہے جسے میں (مرزابشیراحمد) اس