میں فرما دیا ہے کہ دونوں شانوں کے درمیان پشت مبارک پر مہر نبوت تھی اور کیوں نہ ہو جب کہ وہ خاتم النّبیین تھے۔ (اتنی بڑی شہادت کے بعد بھی اگر کوئی نہ سمجھے تو پھر اسے کسی اسلامی حکومت کا جوتا ہی سمجھا سکتا ہے)
مذکورہ بالاحدیث طویل ہے جس میں حضور کا حلیہ شریف حضرت علیؓ نے بیان فرمایا ہے۔ اور مذکورہ الفاظ حدیث کے آخر میں بیان فرمائے ہیں۔ گویا کہ حضرت علیؓ فرما رہے ہیں۔ کہ جیسے حضورؓ کے وجود مبارک میں شک نہیں۔ ایسے ہی آپؓ کے آخری نبی ہونے میں بھی شک نہیں۔ لہٰذا میرا یقین ومذہب بھی ہے کہ حضور خاتم النّبیین ہیں۔ الفاظ مذکورہ کی مخالفت حضرت علیؓ اور حضرت محمدﷺ کی مخالفت ہے۔ پس مخالفت سے بچو اور اﷲ سے ڈرو کہیں انجام خراب نہ ہو۔
شان فاروقی … پینتیسویں حدیث
’’عن عقبۃ بن عامرؓ قال قال النبیﷺ لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب‘‘ (ترمذی، مناقب ابی حفص عمر بن الخطابؓ ج۲،ص۲۰۹۔ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی (بھی) نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔
تشریح
اس حدیث سے حضرت عمرؓ کی کس قدر فضیلت اور بزرگی ثابت ہے کہ امت محمدیہ میں نبوت کا سلسلہ ہی بند ہے۔ اگر نبوت جاری ہوتی تو وہ نبوت مرزا غلام احمد قادیانی یا اس کے چیلوں کو نہ ملتی۔ بلکہ وہ حضور اور حضرت ابوبکرؓ کے بعد تمام مخلوق پر فضیلت رکھنے والے بہادر جرنیل حضرت عمرؓ کو ملتی کیونکہ حضورﷺ نے ابوبکروعمرؓ کی فضیلت کا چاردانگ عالم میں ڈنکا بجایا ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو۔
حدیث شریف
’’عن زبیرؓ مرفوعاً خیر امتی بعدی ابوبکر وعمر‘‘{حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد امت میں سب سے بہتر ابوبکرؓ وعمرؓ ہیں۔}
بقول مرزائیاں اگر کسی افضل، بہتر، بزرگ، عابد، زاہد، متقی، پرہیزگار کو حضور کی نبوت کے بعد نبوت ملتی تو ان دو بزرگوں میں سے کسی کو ملتی۔
سنئے! مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ توریٰت کے ورق پڑھ رہے تھے۔ حضور ان کو پڑھتے ہوئے دیکھ کر ازحد غصہ ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ بھی اس مجلس موجود تھے بلکہ خود حضرت ابوبکرؓ