لوگوں نے بھی اپنی قسمت اس کے ساتھ وابستہ کر دی۔ جب اس کی جمعیت زیادہ بڑھی تو اس نے اہل حق کے خلاف علانیہ ستیزہ کاری شروع کر دی۔ صدہا ارباب ایمان اس کی ظلم رانی کے قتیل ہوکر روضۂ رضوان میں چلے گئے۔ جب اس کی عربدہ جوئیوں نے خطرناک صورت اختیار کی تو وہاں کے حاکم ابوعلی بن مظفر نے اس کی سرکوبی کے لئے ایک جیش روانہ کیا۔
باسندی بلند پہاڑ پر چڑھ کر متحصن ہوگیا۔ لشکر اسلام نے محاصرہ ڈال دیا۔ کچھ مدت کے بعد جب سامان رسد اختتام کو پہنچا تو محصورین کی حالت دن بدن ابتر ہونے لگی اور طاقت جسمانی جواب دے بیٹھی۔ آخر لشکر اسلام پہاڑ پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے طاغوتیوں کو مارمار کر ان کے دھوئیں بکھیر دئیے۔ باسندی کے ہزارہا پیرو نذر اجل ہوئے۔ خود باسندی بھی قصر ہلاکت میں پہنچ گیا۔ اسلامی سپہ سالار نے اس کا سرکاٹ کر ابوعلیٰ کے پاس بھیج دیا۔
(تاریخ کامل ابن اثیر)
۱۸… سید محمد جونپوری
سید محمد جونپوری مدعی نبوت کی ولادت ۸۴۷ھ میں بمقام جونپور ہوئی جو ہندوستان کے صوبہ اودھ میں ہے۔ علوم ظاہری سے فارغ ہوکر شیخ دانیال چشتیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ایک مدت تک ریاضات شاقہ میں مصروف رہا۔ ذکر وفکر کے سوا سید کو کسی طرف توجہ نہ تھی۔ اوائل میں کسی سے ہدیہ ونذرانہ قبول نہ کرتا تھا اور عسرت کے ساتھ بسر اوقات کرتا تھا۔ اس کی ہر ادا سے بزرگانہ انکسار اور درویشی کی شان نمایاں تھی۔
اس وقت دہلی میں خاندان تغلق کا آفتاب لب بام تھا۔ احمد آباد گجرات میں سلطان محمود بیکرہ جیسے بااقبال بادشاہ کی تلوار چمک رہی تھی۔ دکن میں خاندان بہمنیہ کا ستارہ اوج پر تھا۔ مالوہ میں سلطان غیاث الدین اور احمد نگر میں احمد نظام الملک بحری سریر آرائے سلطنت تھے۔ ان کے علاوہ چند خود مختار ایسی ریاستیں تھیں جو زیادہ تر ہندوراجاؤں کے زیرحکومت تھیں۔ جونپور کا علاقہ ریاست داناپور کی عملداری میں داخل تھا۔ جہاں کا مسلمان حاکم میر حسین سید جونپوری کا مرید تھا اور میرحسین ایک ہندو راجہ دلیپ رائے والی گوڑ کا باجگذار تھا۔ کچھ مدت کے بعد میر حسین والئی دانا پور اور راجہ دلیپ رائے میں کسی بات پر نزاع ومخاصمت برپا ہوئی۔ جس کا نتیجہ رزم وپیکار تھا۔ اس لڑائی میں جونپوری اپنے ڈیڑھ ہزار فقراء کے ساتھ جنہیں فوج بیراگیاں کہتے تھے میرحسین کی کمک پر گیا۔ سید اپنے مریدوں سمیت لڑتے لڑتے راجہ کے قریب پہنچ گیا اور دونوں