۱۶… محمد بن علی شلغمانی
ابوجعفر محمد بن علی معروف بابن ابی العزاقر موضع شلغمان کا رہنے والا تھا۔ جو واسط کے مضافات میں ہے۔ ابتداء میں شیعہ امامیہ کے فقہائے اکابر میں اس کا شمار تھا اور اس مذہب کے اصول وعقائد پر کتابیں لکھی تھیں۔ لیکن جب ابوالقاسم حسین بن روح سے جس کو شیعہ لوگ اس خیال سے باب کہتے تھے کہ وہ امام محمد بن حسن عسکری کی طرف سے ان کی غیبوبت کبریٰ کے زمانہ میں وکیل تھا۔ اس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تو اس نے خود امام مختفی کے باب ہونے کا دعویٰ کیا اور شیعوں میں ایک ایسا مذہب ومسلک پیدا کیا جس کی بنیادیں انتہائی غلو اور تناسخ ذات باری کی سطح پر قائم تھیں۔
شیعیت سے ترقی کرنے کے بعد اس نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ اﷲ عزوجل کی روح آدم علیہ السلام کے جسم میں حلول کر گئی۔ ان کے بعد شیث علیہ السلام کے جسد میں داخل ہوئی۔ اسی طرح ایک ایک کر کے انبیاء واوصیاء اور آئمہ کے جسموں میں حلول کرتی رہی۔ یہاں تک کہ اس نے حسن بن علی عسکری کے جسم میں حلول کیا۔ اس کے بعد خود اس (یعنی شلغمانی) میں حلول کر گئی۔ شلغمانی کہتا تھا کہ میں ہی ظاہر وباطن، اوّل وآخر اور قدیم ہوں۔ رازق اور تام ہوں اور تام سے مراد وہ ذات ہے جو ہر صفت سے موصوف ہوسکے۔
سابق وزیراعظم کا دماغی اختلال
شلغمانی ۳۲۰ھ میں بغداد آیا۔ اس وقت خلیفہ قاہر باﷲ آل عباس کے تخت خلافت پر متمکن تھا۔ بغداد کے ہزارہا آدمی اس کے گرویدہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ کئی ایک ذی اقتدار اور صاحب اثر افراد نے بھی اس کی ربوبیت کا اقرار کر لیا۔ جن میں حسن بن قاسم جیسا زیرک وفرزانہ روزگار مدبر بھی جو اس سے پیشتر خلیفہ مقتدر باﷲ کا وزیراعظم رہ چکا تھا داخل تھا۔ اسی طرح بسطام کے دونوں بیٹے ابوجعفر اور ابوعلی جو امرائے بغداد میں سے تھے۔ وہ بھی (معاذ اﷲ) اس کی (من گھڑت) خدائی پر ایمان لے آئے۔ اگر دارالحکومت سے کسی دور دست مقام پر یا کسی نصرانی حاکم کے زیرحکومت رہ کر خدائی کا یہ جال پھیلاتا تو اس سے شاید کوئی تعرض نہ کیا جاتا اور غلام احمد قادیانی کی طرح اسے یہ کہنے کا موقع ملتا کہ چونکہ ایک طویل مدت سے بلا مزاحمت اپنے دعوائے خدائی پر قائم ہوں۔ اس لئے سچا خدا ہوں۔ مگر کسی اسلامی سلطنت بالخصوص اسلامی دارالخلفاء میں اس کی خدائی دیرپا نہیں ہوسکتی تھی۔