تاریخی انقلاب
فخرالدین ملتانی اور شیخ عبدالرحمن مصری کی شاطر سیاست سے علیحدگی کے تقریباً بیس سال بعد جولائی ۱۹۵۶ء میں کچھ لوگوں نے خلافت مآب کی دھاندلیوں اور ان کے خلوت کدے کی زندگی پر کڑی تنقید کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاطر سیاست نے انہیں منافق قرار دے کر جماعت سے خارج کردیا۔ ان تمام حالات پر مفصل بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پس منظر بیان کر دیا جائے۔ تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو اور تلاش حق میں سرگرداں رہنے والوں کے لئے باعث عبرت ہو۔
شیخ عبدالرحمن مصری کی علیحدگی سے دس سال بعد ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو شاطر سیاست اس وقت قادیان میں تھے۔ اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا کہ چاہے دشمن احمدیوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہوا مجھ تک پہنچ جائے۔ میں قادیان سے نہیں جاؤں گا۔ اپنے اس فیصلہ کے حق میں انہوں نے ایک واقعہ بھی بیان کیا اور کہا کہ جب مرزاغلام احمد (مسیح موعود) فوت ہوئے تھے۔ میں نے (یعنی میاں محمود احمد نے) ان کے سرہانے کھڑے ہوکر یہ عہد کیا تھا کہ اے مسیح موعود اگر قادیان سے سارے احمدی بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ تاوقتیکہ موت نہ آجائے۔ چنانچہ اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی غرض سے ۱۹۴۷ء میں خلافت مآب نے قادیان میں اعلان کیا کہ میں قادیان سے نہیں جاؤں گا۔ لیکن اس اعلان کے چند ہی روز بعد جب حالات مزید مخدوش ہوئے تو سادھو کا بھیس بدل کر لاہور آپہنچے اور یہاں آخر یہ کہا کہ میں چند روز کے لئے آیا ہوں۔ پھر واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن آج تک واپس جانا نصیب نہیں ہوا۔
چند لوگوں نے علاوہ اس اعتراض کے جو اخلاق پر تھا یہ اعتراض بھی کیا کہ جب آپ نے اعلان کیا تھا کہ میں قادیان کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑوں گا تو آپ بھیس بدل کر بزدلوں کی طرح کیوں بھاگ آئے؟ نیز جب آپ عمر ثانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر آپ نے عمرؓ کا نمونہ پیش کیوں نہ کیا اور کیوں اس جگہ پر نہ ڈٹے رہے؟ جہاں خطرہ جان تھا اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب اسلام قبول کیا تھا تو وہ مسلمانوں کو لے کر ان مقامات پر چلے جاتے جہاں سوفی صدی آبادی کفار کی ہوتی اور اس بات کا شدید خطرہ ہوتا کہ کفار مل کر حملہ ہی نہ کر دیں۔ ایسے حالات میں وہ مسلمانوں کے ہمراہ وہاں چلے جاتے اور وہاں بلند آواز سے اذان دے کر نماز باجماعت پڑھتے۔ لیکن جہاں ایک طرف حضرت عمر فاروقؓ کا نمونہ ہمارے سامنے ہے وہاں