میں پائے جاتے ہیں۔
(کتاب الاذکیاء لابن جوزی وکتاب المختار وکشف الاسرار للعلامہ عبدالرحمن بن ابوبکر الدمشقی المعروف بالجویریؒ)
۱۰… استادسیس خراسانی
جن ایام میں اسلامی سیاسیات کی باگ ڈور خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی کے ہاتھ میں تھی استادسیس نامی ایک مدعی نبوت اطراف خراسان میں ظاہر ہوا۔ دعویٰ نبوت کے بعد عامۃ الناس اس کثرت سے اس کے دام تزویر میں پھنسے کہ چند ہی سال میں اس کے پیروؤں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ اتنی بڑی جمعیت دیکھ کر اس کے دل میں استعمار اور ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی اور وہ خراسان کے اکثر علاقے دبا بیٹھا۔ یہ دیکھ کر مردروز کے عامل اجثم نے ایک لشکر مرتب کیا اور استادسیس سے جابھڑا۔ مگر اس کی قوت بہت بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے اجثم کے لشکر کا بیشتر حصہ بالکل غارت کر دیا اور خود اجثم بھی میدان جانستان کی نذر ہوگیا۔
اجثم کے مارے جانے کے بعد خلیفہ نے اور بھی سپہ سالار فوجیں دے کر روانہ کئے۔ مگر یا تو وہ مارے گئے یا سرکوب ہوکر واپس آئے۔ جب استادسیس نے خلیفہ کے آخری سپہ سالار کو پسپا کیا ہے تو اس وقت خلیفہ منصور بردان کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ عساکر خلافت کی پیہم ہزیمتوں اور پامالیوں پر خلیفہ سخت پریشان ہوا۔ آخر خازم بن خزیمہ نامی ایک نہایت جنگ آزمودہ فوجی سردار کو اس غرض سے ولی عہد سلطنت مہدی کے پاس نیشاپور بھیجا کہ اس کی صوابدید کے بموجب استادسیس کے مقابلہ پر جائے۔ مہدی نے اسے تمام نشیب وفراز سمجھا کر چالیس ہزار کی جمعیت سے روانہ کیا۔ خازم کی اعانت کے لئے اور بھی آزمودہ کار افسر روانہ کئے گئے۔ بکاربن مسلم عقیلی ایک اور مشہور سپہ سالار بھی حازم کے ماتحت روانہ کیاگیا۔
آخر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ کئی دن تک قتل وخونریزی کا بازار گرم رہا۔ عساکرخلافت نے طاغوتیوں کو مارمار کر ان کے پرخچے اڑادئیے اور اتنی تلوار چلائی کہ میدان جنگ میں ہر طرف مرتدین کی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ ان محاربات میں سیس کے قریباً سترہ ہزار آدمی کام آئے اور چودہ ہزار قید کر لئے گئے۔ سیس بقیہ السیف تیس ہزار فوج کو پہاڑ کی طرف لے بھاگا اور وہاں اس طرح جاچھپا جس طرح خرگوش شکاریوں کے خوف سے کھیتوں میں جاچھپتا ہے۔ خازم نے جاکر پہاڑ کا محاصرہ کر لیا۔ اتنے میں شاہزادہ مہدی نے ابوعون کی قیادت میں بہت سی کمک بھیج دی۔ ابوعون اپنی فوج لے کر اس وقت پہنچا جب استادسیس محصور ہوچکا تھا۔