السلام علیکم! بنو مضر اور بنو ربیعہ کا برا ہو۔ احنف! تم اپنی قوم کو اس طرح دوزخ کی طرف لے جارہے ہو کہ وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہاں تقدیر کو میں بدل نہیں سکتا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم مجھے کذاب کہتے ہو۔ مجھ سے پہلے انبیاء کو بھی اسی طرح جھٹلایا گیا تھا۔ میں ان میں سے اکثر سے فائق وبرتر نہیں ہوں۔ اس لئے اگر مجھے کاذب سمجھا گیا تو کچھ مضائقہ نہیں (تاریخ ابن جریر طبری) ایک دفعہ کسی نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے کہا کہ مختار نزول وحی کا مدعی ہے۔ انہوں نے فرمایا مختار سچ کہتا ہے۔ خدائے برتر نے اس وحی کی اطلاع اس آیت میں دی ہے۔ ’’ان الشیطن لیوحون الیٰ اولیائہم‘‘ (شیطان اپنے دوستوں پر وحی نازل کیا کرتے ہیں)
مختاری اکاذیب کے متعلق مخبر صادق کی پیشین گوئی
مختار کے جھوٹے ہونے کے متعلق خود مخبر صادقﷺ کی پیشین گوئی بھی کتب حدیث مروی ہے۔ چنانچہ ترمذی نے عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا۔ ’’فی ثقیف کذاب ومبیر‘‘ (قوم بنو ثقیف میں ایک کذاب ظاہر ہوگا اور ایک ہلاکو) اس حدیث میں کذاب سے مختار اور ہلاکو سے حجاج بن یوسف مراد ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ حضرت اسماء ذات النطاقینؓ نے حجاج بن یوسف سے کہا کہ رسول اکرمﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب ظاہر ہوگا اور ایک ہلاکو۔ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا یعنی مختار کو اور ہلاکو تو ہے۔
اسی طرح عدیؓ بن خالد سے مروی ہے کہ حضرت خیرالبشرﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں تین دجالوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں۔ میں نے گذارش کی یا رسول اﷲﷺ! آپ نے تو ہمیں کانے دجال اور کذاب الکذابین مسیلمہ کے متعلق اطلاع دی تھی۔ اب یہ تیسرا دجال کون ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک فتنہ گر ہوگا جسے لوگ عارف باﷲ سمجھیں گے۔ حالانکہ وہ ایک ایسا دجال ہوگا جو سیاہ بھیڑئیے سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ آل محمدﷺ کی محبت ظاہر کر کے بندگان خدا کو کھا جائے گا۔ حالانکہ اسے میری سنت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا۔ (حاکم، طبرانی، ابن خزیمہ) مختار کا بہت سا الہامی کلام بھی تھا۔ جو اس نے وحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کیا جو حضرات اس مقفی ومسجّع کلام سے لطف اندوز ہونا چاہیں۔ وہ علامہ عبدالقاہر کی کتاب (الفرق بین الفرق ص۳۴،۳۵) اور (کتاب الدعاۃ ص۶۴،۶۵) کی طرف رجوع فرمائیں۔
مصعب بن زبیرؓ کو مختار پر فوج کشی کرنے کی تحریک
ابراہیم بن اشترکوفی مختار کا دست راست تھا۔ مختار کو جس قدر عروج نصیب ہوا وہ سب ابراہیم بن اشتر کی شجاعت الوالعزمی اور حسن تدبیر ہی کارہین منت تھا۔ ابراہیم ہر میدان میں مختار