محب اہل بیت بننے کی غرض وغایت
اوپر لکھا ہے کہ مختار کو ابتداء میں اہل بیت نبوت سے کوئی محبت وہمدردی نہ تھی۔ بلکہ خارجی المذہب ہونے کے باعث اہل بیت کا دشمن تھا۔ لیکن اس کے بعد مصلحتاً اپنے تئیں محب اہل بیت ظاہر کر کے مقاتلین حضرت حسینؓ کے درپئے انتقام ہوا۔ پس یزیدیوں کا قلع قمع جو اس سے صورت پذیر ہوا اس کی تہ میں حب جاہ وریاست کا جذبہ کام کر رہا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے اس سے کہا اے ابا اسحق! تم کس طرح اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے لگے۔ تمہیں تو ان حضرات سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا؟ کہنے لگا کہ: ’’جب میں نے دیکھا کہ مروان نے شام پر تسلط جمالیا۔ عبداﷲ بن زبیرؓ نے مکہ اور مدینہ میں حکومت قائم کر لی۔ نجدہ یمامہ پر قابض ہوگیا ہے اور ابن حازم نے خراسان دبا لیا ہے تو میں کسی عرب سے ہٹیا نہیں تھا کہ چپ چاپ بیٹھ رہتا اور حصول مملکت کے لئے ہاتھ پاؤں نہ مارتا۔ میں نے جدوجہد کی اور ان بلاد پر عمل ودخل کرکے ان کا ہم پایہ ہوگیا۔‘‘
(الدعاۃ وتاریخ ابن جریر طبری)
مختار کا دعوائے نبوت
جب مختار نے قاتلین اہل بیت کے تہس نہس کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اس قسم کی بہجت افزا خبریں فضائے عالم میں گونج رہی تھیں کہ مختار نے دشمنان اہل بیت کے گلے پر چھری رکھ کر محبان اہل بیت کے زخمہائے دل پر ہمدردی وتسکین کا مرہم رکھا ہے تو پیروان ابن سبا اور غلاّۃ شیعہ نے اطراف واکناف ملک سے سمٹ کر کوفہ کا رخ کیا اور مختار کی حاشیہ نشینی اختیار کر کے تملق وچاپلوسی کے انبار لگادئیے۔ ہرشخص مختار کو آسمان تعلّی پر چڑھاتا۔ بعض خوشامدیوں نے تو اسے یہاں تک کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا کار عظیم وخطیر جو اعلیٰ حضرت کی ذات قدسی صفات سے ظہور میں آیا ہے۔ نبی یا وصی کے بغیر، کسی سے ممکن الوقوع نہیں۔
اس تملق وخوشامد کالازمی نتیجہ جو ہوسکتا تھا وہی ظاہر ہوا۔ مختار کے دل ودماغ پر انانیت وپندار کے جراثیم پیدا ہوئے جو دن بدن بڑھتے گئے اور انجام کار اس نے بساط جرأت پر قدم رکھ کر نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ (الفرق بین الفرق مطبوعہ مصر ص۳۴)
اس دن سے اس نے مکاتبات ومراسلات میں اپنے آپ کو مختار رسول اﷲ لکھنا شروع کر دیا۔ دعوائے نبوت کے ساتھ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدائے برتر کی ذات نے مجھ میں حلول کیا ہے اور جبریل امین ہر وقت میرے پاس آتے ہیں۔ مختار نے احنف بن قیس نامی ایک رئیس کو یہ خط لکھا تھا۔