بعد دیگرے بدکرداری کے واقعات کو دیکھ کر قادیانی جماعت میں انتشار پیدا ہوا۔ کئی آدمی ایسے تھے جو عقیدۃً قادیانی تھے۔ مگر مرزامحمود کے خلاف ہے۔ انہوں نے حقیقت پسند پارٹی کے نام پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کی ایڈہاک کمیٹی میں بشیر رازی، صلاح الدین ناصر، چوہدری عبدالحمید، ملک عزیز الرحمان، محمد یوسف ناز، عبدالمجید اکبر، صالح نور وغیرہ ایسے لوگ شامل تھے۔ انہوں نے یہ کتابچہ مرتب کیا۔ ۱۲؍ستمبر ۱۹۵۷ء کو یہ شائع ہوا تھا۔ اب پھر ستاون سال بعد احتساب کی اس جلد میں اسے محفوظ کر رہے ہیں۔
۱۷… ربوہ کا مذہبی آمر: جناب راحت ملک سابق قادیانی
۱۸… مرزامحمود ہوش میں آؤ: جناب راحت ملک سابق قادیانی
یہ دونوں رسائل جناب راحت ملک کے ہیں۔ جن کا اصل نام ملک عطاء الرحمن تھا۔ یہ گجرات کی قادیانی فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ پورا خاندان قادیانی تھا۔ ان کے بھائی ملک عبدالرحمن خادم تھا۔ جو قادیانی عقائد ونظریات کا پشتیبان تھا۔ احمدیہ پاکٹ بک کا مصنف تھا۔ اﷲ رب کی شان قدرت ہر لمحے نرالی ہے۔ پورا خاندان قادیانی۔ ایک بھائی قادیانیت کو دجل وفریب کے گر سکھانے والا تھا۔ دوسرے بھائی کو اﷲ رب العزت موسیو بشیر یعنی رسوائے عالم مرزامحمود کے بخیئے ادھیڑنے کے لئے کھڑا کر دیا۔ ’’مرزامحمود ہوش میں آؤ‘‘ یہ مختصر چند صفحاتی پمفلٹ لکھ کر مرزا محمود کو نتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ مرزامحمود کو نتھ ڈالنا اور خنزیر پر سواری کرنے سے کیا کم مشکل امر تھا۔ اس پمفلٹ سے مرزامحمود دو لتیاں چلانے لگا۔ دنیائے قادیانیت جانتی ہے کہ مرزامحمود کے منہ کھولتے ہی غلاظت کے ڈھیر نکلنے شروع ہو جاتے تھے۔ ظاہرہے کہ برتن سے وہی نکلے گا جو اس میں ہے۔ مرزامحمود بدزبانی پر اتر آیا تو جناب راحت ملک نے اس اپنے رسالہ ’’مرزامحمود ہوش میں آؤ‘‘ کی شرح لکھنی شروع کر دی۔ جس کا نام ’’ربوہ کا مذہبی آمر‘‘ ہے۔ ان دونوں رسائل میں انہوں نے مرزامحمود کے تن بدن سے اس کے لباس کو تارتار کر دیا ہے۔ لیکن ان کے قلم نے کہیں بھی ایسی روش اختیار نہیں کی کہ جس سے اسے فحاشی کا مرتکب قرار دیا جاسکے۔ دونوں رسائل کا اس جلد میں ریکارڈ ہو جانا بہت ٹھیک ہوگیا کہ مرزامحمود ایسے رذیل کی رذالت بوتل میں بند ہوگئی۔ ’’ربوہ کا مذہبی آمر‘‘ کا ستمبر ۱۹۵۸ء میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ جب کہ دوسرا پمفلٹ اس سے بھی قبل کا ہے۔ نصف صدی بعد یہ رسائل دوبارہ چھپ رہے ہیں۔