ایسے الفاظ میں یاد فرمایا ہے کہ جواب دینے پر مجبور ہوں۔ آپ نے لکھا ہے۔ عطاء الرحمن راحت نے تو خود یہ اعلان کر دیا ہے کہ میں آٹھ سال سے جماعت سے علیحدہ ہوں۔ لہٰذا ان کا نام قرار دادوں میں لینے کی ضرورت نہیں۔ جماعت کو صرف یہ نوٹ کرلینا چاہئے کہ وہ جماعت میں نہیں ہیں۔ البتہ ہم عطاء الرحمن صاحب سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ ان کے والد مرحوم بھی کافر اور مرتد تھے اور اب ان کی والدہ بھی کافرہ اور مرتد ہیں یا نہیں؟‘‘
آپ کی اس تحریر کے دو حصے ہیں اور میں ان کا الگ الگ جواب دوں گا۔ آپ کے استفسار اور ارشاد کا پہلا حصہ ’’جماعت میں نہیں ہیں‘‘ کے الفاظ تک ہے۔ اور دوسرا حصہ البتہ کے بعد شروع ہو گا۔
جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے ہرذی فہم وذی شعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس میں محض شرارت کا پہلو ہے۔ جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا جماعت سے کوئی سروکار نہیں تو آپ ہر روز باربار اس کا نام اخبار میں کیوں شائع کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر آپ کو یہ اعلان اخبار میں کرنا ہی مقصود تھا تو البتہ کے بعد جو خرافات بکی ہیں اس کی کیا ضرورت تھی اور اگر یہ انداز تحریر خدائی جماعتوں کے ارکان کا ہوسکتا ہے یا خدا کے محبوب کا ہوسکتا ہے تو پھر بات بہت دور تک پہنچے گی۔ اس لئے میں اسے یہیں چھوڑتا ہوں۔
آپ کی تحریرکا دوسرا حصہ بہت اہم ہے۔ جس میں آپ نے اپنے حسن اخلاق اور اعلیٰ علم کا مکمل طور پر مظاہرہ کیا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے۔ ’’البتہ ہم عطاء الرحمن سے یہ پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ کیا ان کے والد مرحوم بھی کافر اور مرتد تھے اور ان کی والدہ بھی کافرہ اورمرتدہ ہیں یا نہیں۔‘‘
میاںصاحب! یہ تو بتائیے کہ میں نے کب کسی کو کافر کہا ہے۔ اگر میں نے کبھی بھی کسی کو کافر نہیں کہا تو پھر مجھ سے یہ سوال بے معنی اور لغو ہے۔ باوجود اس کے کہ میں نے کبھی بھی کسی کو کافر نہیں کہا۔ آپ مجھ سے اس کا جواب لینے پر ہی مصر ہیں تو گذارش ہے کہ اوّل تو ملک عبدالرحمن