۸… کیا آپ میرے ساتھ اس بات پر مباہلہ کریں گے کہ بچپن میں آپ پر عالم مفعولیت طاری نہیں رہا۔
۹… کیا آپ میرے ساتھ مباہلہ کرنے کو تیار ہیں کہ انجمن کے حسابات میں گڑبڑ نہیں ہے اور اس گڑ بڑ کا آپ کو کوئی علم نہیں یا یہ گڑ بڑ آپ کے ایماء پر نہیں ہورہی ہے۔
۱۰… کیا آپ میرے ساتھ اس موضوع پر مباہلہ کرنے کو تیار ہیں کہ جن لوگوں کوجماعت سے خارج کیاگیا ہے ان کا قصور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ آپ کی بدعنوانیوں پر تنقید کرتے ہیں۔
۱۱… کیا آپ اس بات پر مباہلہ کرنے کو تیار ہیں کہ آپ کے دل میں خلیفہ اوّل نورالدین کی قدرومنزلت اور احترام ہے۔
مندرجہ بالا شقوں کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ہیں۔ لیکن فی الحال میں آپ کی توجہ ان امور کی طرف مبذول کرانے کے بعد آپ کو مباہلے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر آپ اپنے آپ کو خدا کا محبوب کہتے ہیں تو آئیے فیصلہ انہی امور پر ہو جائے۔ یقینا خدا فیصلہ کرے گا اور ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہو گا وہ ڈاکٹر ڈوئی کی طرح فالج کی موت مرے گا۔ اگر آپ اپنے دعاوی میں سچے ہیں تو آئیے اس چیلنج کو منظور فرمائیے اور فیصلہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دیجئے۔ لیکن میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ان امور پر کبھی بھی مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ آپ اپنے اعمال سے بخوبی واقف ہیں اور ڈاکٹر ڈوئی کی موت مرنا پسند نہیں کریں گے:
’’قبلہ میاں صاحب! میں نے نوائے پاکستان کے توسط سے اور ایک براہ راست خط کی وساطت سے جناب سے گذارش کی تھی کہ مجھ پر چشم التفات چھوڑ دیجئے۔ کیونکہ میں آپ کی جماعت کا ایک پائی کا بھی رکن نہیں اور نہ ہی میرا آپ سے کوئی سروکار ہے۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ آپ کو میرے ان سیدھے سادھے شریفانہ الفاظ کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا اور آپ باربار اپنے سرکاری اخبار میں مجھے یاد فرمارہے ہیں۔ آج مورخہ ۲۳؍اکتوبر کے الفضل میں آپ نے مجھے کچھ