خادم سے جو آپ کے مخلص مرید ہیں اس کا جواب حاصل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن چونکہ آپ نے خاص طور پر مجھے ہی یاد فرمایا ہے تو پھر میں ہی جواب دینے کی جسارت کرتا ہوں۔ محترمی میاں صاحب! آپ کے نزدیک آپ کی دادی مرحومہ اور آپ کے دادا مرحوم کافرہ اور کافر تھے یا نہیں؟ جو جواب اب آپ اس سوال کا دیں گے وہ اپنے سوال کے جواب میں میرا جواب سمجھ لیں۔ آپ صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہتے کہ جو شخص مرزاقادیانی کو نبی نہیں سمجھتا وہ کافر ہے اور گول مول الفاظ میں جو بحث آپ چھیڑنا چاہتے ہیں میں اسے بخوبی سمجھتا ہوں۔ کیا آپ میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ آپ اپنے اور مرزاقادیانی کے منکر کو کافر سمجھنے کے عقیدہ کا اعلان فرمائیں۔
دراصل جب سانپ کی موت آتی ہے تو وہ راستے میں آ بیٹھتا ہے اور جب کتے کی موت آتی ہے تو مسجد میں پیشاب کرتا ہے۔ خدا کے لئے اپنے الفاظ پر غور فرمائیے۔ اس قسم کے الفاظ کیا کسی صحیح الدماغ شخص کے قلم سے نکل سکتے ہیں۔ آپ کی ان تمام زیادتیوں کے باوجود میں آپ کو پھر شریفانہ انداز میں متنبہ کرتاہوں کہ آپ ہمیں ان واقعات کو منظر عام پر لانے کے لئے مجبور نہ کریں۔ جن سے آپ کی بیگمات کی توہین ہوگی۔ ہمیں ۱۹۴۷ء کے بعد کے وہ کارہائے نمایاں قلم بند کرنے پر مجبور نہ کریں جو قادیان سے لاہور آکر آپ کی بیگمات نے سرانجام دئیے تھے۔ ہمیں ان ہولناک واقعات سے پردہ اٹھانے پر مجبور نہ کیجئے جو آپ کی ذات والاصفات سے وابستہ ہیں۔ ہمیں ان بے بس اور بے کس عورتوں کے افسانے رقم کرنے پر مجبور نہ کریں جن کی عصمتیں لٹ گئیں اور اس کے باوجود اﷲتعالیٰ آپ سے عشق فرماتا ہے۔ ہوش میں آنے کی کوشش کیجئے۔ ورنہ اس طوفان سے ٹکرانے کو تیار ہو جائیے۔ جو سر اٹھانے کو بے تاب ہے۔ میں شرافت اور انسانیت کے نام پر پھر یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی گندی پالیسی پر نظر ثانی فرمائیے اور شریف لوگ کی پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ بند کر دیجئے۔ ورنہ ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس امن کو نذر آتش کرنے سے آپ ہی کو نقصان ہوگا۔ مخلص: راحت ملک!