کے کانوں پر جوں رینگی ہے ور نہ ہی مرزامحمود احمد کے طریق کار میں کوئی فرق آیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ارباب حکومت نے مرزامحمود احمد کو پاکستان کے شریف شہریوں کی پگڑیاں اچھالنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ہم وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب گورنر مغربی پاکستان، میاں مشتاق احمد گورمانی اور وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہروردی کی توجہ حالات کی اس نزاکت کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جسے محمود احمد خود پیدا کر رہے ہیں۔ میں نے آج تک مرزامحمود احمد کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور نہ ہی ان کی آسمانی وائرلیس پر کبھی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے بھی اپنی دشنام طرازی میں محض اس لئے شامل کیا جارہا ہے کہ کہیں میں ان کے وہ تمام اندرونی حالات جو میں جانتا ہوں افشا نہ کردوں۔ میراایک مکتوب نوائے پاکستان میں شائع ہو چکا ہے۔ جس میں میں نے واضح الفاظ میں تحریر کیا تھا کہ میرا اس جماعت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا میرا نام الفضل میں شائع کرنا ناجائز اور شرانگیز ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج مورخہ ۲۳؍اکتوبر کے الفضل میں پھر میرا نام شائع کیاگیا ہے اور گول مول الفاظ میں مجھے ماں کی گالی دی گئی ہے۔ اس واضح گالی کی طرف میں ارباب متعلقہ کی توجہ مبذول کرانے کے بعد صرف اس قدر استفسار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کیا ارباب حکومت مرزامحمود احمد کی زبان کو لگام دیں گے؟
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں نے مرزامحمود احمد کو اس سے پہلے متنبہ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس قسم کی روش چھوڑ دیں اور کم ازکم میرانام شائع کرنے سے گریز کریں۔ لیکن چونکہ اب وہ ماؤں اور بہنوں کی گالیوں پر اتر آئے ہیں۔ اس لئے یہ پمفلٹ جوابی کارروائی کے طور پر لکھ رہا ہوں اور تقریباً وہی الفاظ ان کے لئے استعمال کر رہا ہوں جو وہ دوسروں کے لئے استعمال کرنا عین اخلاق تصور کرتے ہیں۔ یوں تو میں مرزامحمود احمدکو لکھتا بھی نہیں۔ لیکن چونکہ وہ اپنی روش سے باز نہیں آتے اور گالیاں دینے پر مصر ہیں۔ لہٰذا جواب تحریر کرنے پر مجبور ہوں۔
مخلص: راحت ملک