اور پھر اس رؤیا کو نہایت درجہ معنی خیز اور تلخ تقدیر قرار دیا ہے۔ جس سے اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے کہ شاطر سیاست کی ذہنی صلاحیتیں مخدوش ہوچکی ہیں اور مرزاغلام احمد کا ہاتھ اس وقت ایک دیوانے کے ہاتھ میں ہے اور الفضل نے مریدوں کواس خبر سے آشناکرنے کے لئے پہلے سے زمین ہموار کرنی شروع کر دی ہے۔ تاکہ جب مریدوں کو خلافت مآب کی حالت دیوانگی کا علم ہو تو وہ اسے سننے کے لئے پہلے سے تیار رہیں۔ میں آمریت مآب کے وظیفہ خواروں، خوشامدیوں اور نام نہاد خالد بن ولیدوں سے صرف اس قدر استفسار کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ کیا ان کے پاس کوئی ایسی مثال ہے کہ خلفائے راشدین میں سے کوئی پاگل ہوا ہو۔ نعوذ باﷲ یادیوانگی کا کبھی دورہ ہی پڑا ہو اور کیا پاگل ہو جانا الٰہی عذاب نہیں؟
جس شخص نے اپنی زندگی کے بیالیس سال بے اعتدالیوں اور بدعنوانیوں کے جنم دینے اور پھر ان پہ پردہ ڈالنے پر صرف کئے ممکن نہیں ایسا شخص عذاب الٰہی سے بچ نکلے۔وہ اپنے لئے دعاؤں کی لاکھ درخواستیں کرے۔لیکن قہر خداوندی نازل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زمین وآسمان اپنی جائے قیام بدل سکتے ہیں۔ فرشتے زمین پر اور انسان آسمان پر منتقل ہوسکتے ہیں۔ لیکن خدائے برتر ایسے انسان کو کبھی بھی معاف نہیں کر سکتا۔ جس کی مذہبی قیادت نے ہزاروں عصمتوں پر ڈاکے ڈالے جو راہبر کی صورت میں دنیا کے سامنے جلوہ نما ہوا۔ سعید فطرت انسان اسے رہنما سمجھ کر پیچھے ہولئے۔ لیکن وہ راہزن نکلا۔ دنیا نے اسے انسان سمجھا۔ لیکن وہ بھیڑیا ثابت ہوا۔ اس نے اپنے چاروں طرف ظلمتیں پھیلا دیں۔ تاکہ اس کی بے راہ رویوں پہ پردہ پڑا رہے۔ بھولے بھالے مرید اس کی ایسی تدابیر کو نہ سمجھ سکے اور چند روشن فہم اور ذی شعور مریدوں کو جب سمجھ آئی تو انہوں نے شب گزیدہ سحر کو صبح تاباں دیکھنے کی تمنا کی۔ لیکن وہ اپنی تمناؤں، آرزوؤں اور حسرتوں کے ماتم کو شادی کے شادیانوں میں نہ بدل سکے اور یہ کہہ کر ؎
شب تیرہ چراغ راہزن ہے
ہمارے راہبر کو کیا سحر سے
یا تو خاموش ہو رہے اور یا علیحدہ ہوگئے۔ اس نے اپنے شریف ناقدین کی پگڑیاں اچھالیں اور غنڈوں اور گھٹیا قسم کے ملاؤں کو خالد بن ولید بنادیا اور یہ سب کچھ بھول گیا کہ سرور کائناتﷺ کا خالد بن ولید فاتح کارزار اور دلیر انسان تھا۔ لیکن جن لوگوں کو وہ خالد بن ولید قرار دیتا ہے۔ وہ گیدڑ کی طرح بزدل ہیں۔ رسول کریمﷺ کا خالد بن ولید صالح اور نیک فطرت تھا۔