اس کے خالد بن ولیدوں میں سے بعض زانی ہیں اور فن اغلامیات میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
قصر خلافت کے اس اداکار نے نہ صرف اپنے مرید ناقدین کے خون سے ہاتھ رنگے بلکہ اپنے حرم میں بھی اس خونچکاں معرکہ آرائی کے مناظر پیش کئے وہ کہ جنہوں نے اس کی بات مان کر مدہوش وادیوں میں جادہ پیمائی کرنا منظور کر لی۔ چمن کی ہزاریں بنیں۔ لیکن وہ کہ جنہوں نے اپنی عزت وناموس اور خاندانی وجاہت کے لئے غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ناجائز باتیں ماننے سے انکار کیا۔ انہیں زہر کے گھونٹ پلا کر میٹھی نیند سلا دیا۔ امۃ الحی کی روح کیوں اور کیسے قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ حرم میں سے وہ تھی۔ جس نے قصر کے اس ولن اور ہیرو کی ناجائز باتیں ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ نہ صرف منکر بنی بلکہ علم بغاوت بلند کیا اور آخر اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ہیرو کی بے راہ روی کو دیکھنے والوں کا ہوتا ہے۔
نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری
امتہ الحئی نے بھی آنکھیں موند لیں اور قصر کے باہر بھی بہت سے ایسے تھے جن کو دیکھنے کے جرم میں رازداری کی سزا دی گئی اور جو قتل نہ ہوسکے۔ ان کی زندگیاں اجیرن بنادیں۔ گویا وہ زندہ تو ہیں لیکن چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ وہ عقیدت مند ہو کر گئے تھے اور عقیدت بند ہوکر لوٹ آئے۔ لیکن وہ لوگ جن کے خون سے ہاتھ رنگے گئے۔ ان کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ بلکہ ان کے خون کی ایک ایک بوند جہاں کہیں بھی گری، بڑھی اور سینکڑوں انسانوں کے جسموں میں تحلیل کر گئی۔ دنیا میں جب کبھی بھی انقلاب نے انگڑائی لی ہے۔ مظلوم اور بے بس وبیکس انسانوں کے خون ہی نے اسے دعوت عمل دی ہے۔ پس ان لوگوں کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ بلکہ ان کے خون کی بوندوں نے انقلاب کے نشانات پیدا کئے ہیں اور آج بھی اور کل بھی اور قیامت تک صداقت اور حق گوئی میں جس کا خون بھی بہے گا وہ رائیگاں نہیں جائے گا۔ بلکہ مقتول کے خون کے جس قدر قطرے زمین پر گریں گے۔ مادر وطن اس کا انتقام لینے کے لئے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں میں وہ قطرات تحلیل کر دے گی جو ردعمل کی تھیوری کا عملی ثبوت بہم پہنچائیں گے۔ پس وہ دن دور نہیںبلکہ بہت قریب ہیں کہ جب ریت پر بنایا ہوا یہ قصر دھڑام سے زمین پر آرہے گا اور حق ساری دنیا پر چھا جائے گا۔
’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘