ایک لفظ دلائل وبراہین کا آئینہ دار ہے۔ بات بات سے علم وعرفان کے چشمے ابل رہے ہیں۔ جو شخص بھی ان سطور کو پڑھ لے حضور کی علمی صلاحیتوں کا فوراً قائل ہو جاتا ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس قسم کا جواب دنیا حضور ہی کا حصہ ہے۔ بلکہ یہ عظیم الشان جواب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی فضل عمر ہیں۔ کیونکہ ایسا جواب تو حضرت عمرؓ کو بھی نہیں سوجھا تھا اور سوجھ بھی کیسے سکتا تھا۔ وہ میدان کے مرد اور اخلاق کی زندہ تصویر تھے۔ ان سے ایسے جواب کی توقع کیسے کی جاسکتی تھی۔ جو لوگ نفسیات سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اوچھے ہتھیاروں پر وہی لوگ اترآتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں یا جن میں علمی صلاحیتیں مفقود ہوتی ہیں یا جن میں علمی صلاحیتوں کا فقدان ہوتا ہے۔ حلیمی اور بردباری ان لوگوں کو شیوہ ہوتا ہے جو دلیر اور علم وعمل میں لاثانی ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ، حلیم اور بردبار تھے۔ دلیری اور شجاعت میں ان کا ثانی نہ تھا۔ اس لئے وہ اس قسم کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ لیکن شاطر سیاست کا جواب معرفت کی باتیں ہیں جو صرف انہی کا حصہ ہیں۔ جب حضرت عمرؓ پر چادر کے سلسلہ میں ایک جوان نے اٹھ کر اعتراض کیا تھا تو حضرت عمرؓ کو چاہئے تھا کہ اسے فوراً یہ جواب دیتے کہ خلیفہ میں ہوں۔ آپ نہیں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے حق میں ہیں کہ میں نے دو چادریں کیوں لی ہیں۔ آپ (معترض) ان کو لے کر الگ ہو جائیں اور اپنی الگ خلافت قائم کر لیں۔ لیکن افسوس کہ حضرت عمرؓ کے متعلق سرور کائناتﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’حضرت عمرؓ میری آنکھ ہیں اور نیز یہ کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ حضرت عمرؓ ہی ہوتے۔‘‘ کو بھی ایسا جواب نہ سوجھا۔ کیونکہ اگر انہیں ایسا جواب سوجھ جاتا تو آج شاطر سیاست فضل عمر کیسے بنتے؟ الغرض کوئی پڑھا لکھا شخص ان کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔ بلکہ نفسیاتی طور پر ان کا یہ جواب احساس شکست اور احساس کمتری کا کھلا اقرار اور آمرانہ انداز بیان کا واضح ثبوت ہے۔
پھر اسلام کا تو ذکر ہی کیا وہ اپنے باپ (مرزاغلام احمد قادیانی) کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کے باپ نے اپنی تعلیمات میں کہا تھا کہ جو برے افعال کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور شاطر سیاست انہی افعال سے تمام عمر کھیلتے رہے ہیں۔ باپ نے شرائط بیعت میں جو پابندیاں اور جو قیود قائم کی تھیں شاطر سیاست ان قیود کو بھی توڑ کر بڑی تمکنت سے گذر جاتے ہیں۔ حالانکہ مرزاغلام احمد قادیانی نے شرائط بیعت اور اپنی تعلیمات میں جو حدود قائم کی تھیں ان کے نزدیک ان کو توڑنے والا ان کی جماعت کا رکن ہی نہیں رہ سکتا۔ چہ جائیکہ کسی ذمہ دار عہدہ پر فائز رہے۔ لیکن قیود حدود کو وہی شخص توڑ سکتا ہے جس میں