اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ الہام حکیم نور الدین سے متعلق نہیں تو پھر کس کے متعلق ہے۔ شاطر سیاست نے اس الہام کا مصداق حکیم نورالدین کی اولاد کو قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’علم تعبیرالرؤیا کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ بعض دفعہ خواب میں باپ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بیٹے کے ذریعہ خواب پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول کریمﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ابوجہل نے انگور کا ایک خوشہ حضورﷺ کو دیا ہے۔ لیکن اس کی تعبیر یہ ظاہر ہوئی کہ اس کا بیٹا اسلام قبول کر کے اسلام میں داخل ہوگیا۔ پس الہام استقامت میں فرق آگیا کے مصداق حضرت خلیفہ اوّل کسی صورت میں بھی نہیں ہوسکتے۔ ہاں! آپ کی اولاد اپنے عمل سے اپنے آپ کو اس کا ضرور مصداق ثابت کر رہی ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹؍ستمبر ۱۹۵۶ئ)
انہوں نے اس بھونڈے استدلال سے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ اس الہام سے مراد نورالدین کی معتوب اولاد ہے اور علم تعبیر الرؤیا کی رو سے یہ تو درست ہے کہ بعض دفعہ خواب میں باپ دکھایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بیٹے کے ذریعہ خواب پورا ہوتا ہے۔ لیکن اس کشف میں باپ نہیں دکھایا گیا۔ بلکہ گرنے والا نامعلوم شخص ہے اور اس کی تعبیر استقامت میں فرق آنا بیان کی گئی ہے۔ شاطر سیاست نے اپنے استدلال کے حق میں جو مثال پیش کی ہے۔ اس میں خواب دیکھنے والے سرور کائناتﷺ ہیں اور ان کو انگور کا خوشہ دینے والا ابوجہل ہے۔ اب اگر مرزاقادیانی اپنے کشف میں نورالدین کو گھوڑے سے گرتے ہوئے دیکھتے تو پھر شاطر سیاست کا استدلال ٹھیک تھا۔ لیکن گھوڑے سے گرنے والا نامعلوم شخص ہے اور پھر گھوڑے سے گرنے سے مراد گھوڑے سے گرنا نہیں بلکہ استقامت میں فرق آنا ہے۔ جیسا کہ شاطر سیاست نے خود تسلیم کیا ہے۔ پس اس الہام پر غور کرنے سے صاف طور پر ہے کہ وہ الہام نہ ہی حکیم مولوی نورالدین کے متعلق ہے اور نہ ہی اس کی مصداق ان کی اولاد ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر اس کا مصداق کون ہے تو آئیے اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں۔
مرزاقادیانی پر کشفی حالت طاری ہوتی ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی جماعت میں سے ایک شخص گھوڑے سے گر پڑا ہے۔ وہ اس کی تعبیر پر غور کرتے ہیں کہ الہام کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور الہام ہوتا ہے کہ استقامت میں فرق آگیا۔ اب ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ استقامت سے کیا مراد ہے۔ کس کی استقامت میں فرق آیا ہے اور نیز کشفی نظارہ کا اس الہامی فقرہ سے کیا تعلق ہے۔