جب کسی شخص کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے نور میسر آتا ہے تو سب سے پہلے اس کا تعلق ہدایت سے ہوتا ہے اور ہدایت کی مثال گھوڑے سے دی جاسکتی ہے۔ جس پر انسان سوار ہوکر منزل مقصودکی طرف گامزن ہو پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں شاطر سیاست بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں: ’’مؤمن کو اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے کسی اور سواری کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلکہ ہدایت ہی اس کا گھوڑا بن جاتی ہے اور وہ اس پر سوار ہو کر اپنے رب کے پاس پہنچ جاتا ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۸؍اکتوبر ۱۹۵۶ئ)
پھر شاطر سیاست فرماتے ہیں کہ: ’’علیحدگی کے یہ معنی ہیں کہ مؤمن ہدایت پر سوار ہوتا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍اکتوبر ۱۹۵۶ئ)
پس یہ امر مسلم ہے کہ ہدایت ہی انسان کا گھوڑا ہوتی ہے۔ جس پر انسان سوار ہوکر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوپڑتا ہے۔ ہدایت کے بعد دوسرا مقام عقائد کا ہے۔ جب انسان کو ہدایت میسر آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی عقائد بھی اسے دے دئیے جاتے ہیں۔ عقائد کو گھوڑے کی زین (کاٹھی) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہدایت اور عقائد دونوں چیزیں ہم آہنگ ہوکر انسان کو منزل مقصود پر پہنچاتی ہیں اور ان دونوں چیزوں کا تعلق انسان کی قوت واستقامت سے ہے۔ پس کشفی حالت میں گھوڑے سے گرتے ہوئے جس شخص کو دکھایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ہدایت اور عقائد کا دامن چھوڑ دے گا اور ہدایت اور عقائد کے اعتبار سے اس کی استقامت میں فرق آجائے گا۔ اب آئیے دیکھیں کہ ہدایت اور عقائد کے اعتبار سے کس کی استقامت میں فرق آیا ہے؟
تحقیقاتی کمیشن کے سامنے انہوں نے فرمایا تھا کہ آنحضرتﷺ بھی معصوم نہیں ہیں اور نیز یہ کہ اگر کوئی شخص چاہے تو آنحضرتﷺ سے بھی تقویٰ اور پرہیزگاری میں بڑھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں شاطر سیاست خداتعالیٰ کی طرف بھی غلط باتیں منسوب کر کے اپنی مصلحتیں پوری کرتے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پر بھی ان کا ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے ہدایت سے روگردانی کر لی۔
باقی رہا عقائد تو تحقیقاتی کمیشن میں انہوں نے اپنے عقائد بھی تبدیل کر لئے اور کہہ دیا کہ مرزاقادیانی کا منکر کافر نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے قبل وہ مرزاقادیانی کے منکر کو کافر کہتے تھے۔
’’کسی مدعی ماموریت کو جب کوئی نہ مانے تو اسے کافر کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۷؍اگست ۱۹۳۷ئ)