میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا۔ پھر آنکھ کھل گئی۔ سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں۔ قیاسی طور پر جو بات اقرب ہو لگائی جاسکتی ہے کہ اس اثناء میں غنودگی غالب ہوئی اور الہام ہوا۔‘‘
’’استقامت میں فرق آگیا۔‘‘
(تذکرہ ص۴۶۶ طبع۳، بدر ج۲ نمبر۱۰ مورخہ ۲۷؍مارچ ۱۹۰۳ئ)
مرزاقادیانی کے اس الہام کے بعد ایک روز حکیم نورالدین (خلیفہ اوّل) گھوڑے پر سے گر پڑے۔ شاطر سیاست نے جو نورالدین کے عہد خلافت میں ہی ان کے مخالف تھے اور اندرونی طور پر ان کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ حکیم نورالدین کو ایک گمنام خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ نورالدین کے گھوڑے سے گرنے سے مرزاغلام احمد کا الہام پورا ہوگیا ہے۔ جب وہ خط حکیم کو ملا تو انہوں نے کہا: ’’ایک نے مجھے خط چھپوا کر بھیجا اور پوچھا کہ میں اسے شائع کر دوں۔ میں نے کہا تم نے قرآن کے خلاف کیا تم بدبخت ہو۔ اس نے کہا تم گھوڑے پر سے گر گئے ہو۔ تم میں استقامت ہی نہیں۔‘‘ (تقریر نورالدین مورخہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۱۳ئ)
جب شاطر سیاست نے حکیم نورالدین کی یہ تقریر سنی تو حکیم نورالدین کو خوش کرنے کی غرض سے اس گمنام خط کا ایک جواب لکھا (یاد رہے کہ انہوں نے گمنام خط بھی خود ہی لکھا تھا) اور اسے اظہار حقیقت کے عنوان سے ایک ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا جس میں لکھا کہ: ’’اس سے معلوم ہوا کہ استقامت میں فرق آگیا۔ اس خواب کی تعبیر ہے۔ پس جس شخص کی نسبت وہ الہام ہے وہ تو گھوڑے سے نہیں گرے گا۔ بلکہ اس کے گھوڑے سے گرنے کی تعبیر یہ ہے کہ اس کی استقامت میں فرق آگیا۔ لیکن نورالدین صاحب (خلیفۃ المسیح) تو خود گھوڑے پر سے گر گئے۔ پس وہ الہام آپ کی نسبت نہیں ہوسکتا۔‘‘ (اظہار حقیقت)
اس وضاحت میں بھی اس بات کا اقرار موجود ہے کہ یہ الہام حکیم نورالدین سے متعلق نہیں تھا۔ چنانچہ اس وضاحت کی روشنی میں حسب ذیل دو باتیں غور طلب ہیں۔ جنہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
اوّل… یہ الہام نورالدین کے متعلق نہیں۔
دوم… یہ الہام جس شخص کے متعلق ہے وہ گھوڑے سے نہیں گرے گا۔ بلکہ کشفی حالت میں گھوڑے سے گرتے ہوئے ایک شخص کو دکھانے کی تعبیر یہ ہے کہ استقامت میں فرق آگیا ہے۔