مرزاغلام احمد قادیانی کے سامنے قصیدہ پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ شاعر اور اس کے ساتھی مرزاغلام احمد قادیانی کے مرید ہیں اور وہ شاطر سیاست کی بدعنوانیوں سے تنگ آکر گریہ وزاری کرتے ہیں۔ چنانچہ اس شاعر کی قیادت میں جو گروپ شاطر سیاست سے علیحدہ ہوا ہے وہ مرزاغلام احمد قادیانی کو تو نبی مانتا ہے۔ لیکن شاطر سیاست کی خلافت کامنکر ہے۔
۵… ’’وہ بھی فارسی میں تھا اور اس میں بھی حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) ہی مخاطب تھے۔ اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ آپ کو اﷲتعالیٰ نے دنیا کی ہدایت اور اس کو روشنی پہنچانے کے لئے مامور کیا اور آپ کا لایا ہوا نور دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا۔‘‘
اس حصہ میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ شاطر سیاست سے عدم وابستگی کا اعلان کرنے والے صرف ان کی خلافت سے عدم وابستگی کا اظہار کریں گے۔ مرزا کی نبوت سے نہیں۔
۶… ’’پھر وہ متعدد ممالک کا نام لیتاہے اور اس کے بعد وہ اس مضمون سے گریز کرتا ہوا ادھر آتا ہے کہ کاٹھیاوار یا ایسا ہی علاقہ اس نے ہندوستان کا بتایا ہے کہ وہاں بھی گیا اور لوگ وہاں آپ کے نام سے ناواقف تھے اور آپ کی تعلیم کسی تک نہیں پہنچی تھی۔‘‘
شاطر سیاست فخر سے کہا کرتے ہیں کہ انہوں نے فلاں ملک میں اسلام کی تبلیغ کی یورپ میں مشن کھولا۔ امریکہ میں اسلام پھیلایا۔ شاعران ممالک کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان ممالک میں آپ (مرزاغلام احمد قادیانی) کا نام پہنچا ہے لیکن وہ یہ کہہ کر اس مضمون سے اس لئے گریز کرجاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان ممالک میں بھی تسلی بخش کام نہیں ہوا۔ چنانچہ اس کا فوراً ہندوستان کے ایک شہر کا نام لے کر یہ کہنا کہ وہاں آپ کی تعلیم نہیں پہنچی۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) کی تعلیم تو صحیح طریق سے ہندوستان میں بھی نہیں پہنچی۔ چہ جائیکہ دوسرے ممالک کانام لیا جائے۔ شاعر نے اس بات میں طنزیہ طور پر بھی کہہ دیا۔ بلکہ شکایت کی کہ آپ (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) کی تعلیم کو پیش نہیں کیا جاتا اور ابھی دنیا اس سے آشنا نہیں ہوئی۔ چنانچہ ایک شاعر کی قیادت میں شاطر سیاست سے عدم وابستگی کرنے والے نوجوانوں نے جہاں اور اعتراض کئے وہاں انہوں نے شاطر سیاست پر ایک اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے باپ کا نام لے کر اپنے مقاصد تو پورے کرتے ہیں لیکن اپنے باپ کی تعلیمات کی اشاعت کی بجائے اپنی مہمل تصانیف کی اشاعت کرتے ہیں یا سندھ میں اپنے نام پر اراضی خریدتے ہیں۔